اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام 'من کی بات'میں وزیرا عظم نریندر مودی نے کہا کہ 11 اکتوبر کا دن ہمارے لئے بہت ہی خاص ہوتا ہے۔اس دن ہم بھارت رتن لوک نائیک جےپرکاش نارائن (جےپی) کو ان کی یوم پیدائش پر یاد کرتے ہیں۔
انہوں نے ہمارے جمہوری اقتدار کی حفاظت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہم بھارت رتن ناناجی دیشمکھ کو بھی یاد کرتے ہیں جن کی یوم پیدائش بھی 11 اکتوبر کو ہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ناناجی دیشمکھ مسٹر جے پرکاش نارائن کے بہت نزدیکی ساتھی تھے۔ بدعنوانی کے خلاف لڑائی کے دوران پٹنہ میں جب جےپی پر جان لیوا حملہ کیا گیا تھا تب ناناجی دیشمکھ نے وہ وار اپنے اوپر لے لیا تھا۔
اس حملے میں ناناجی کو کافی چوٹ آئی تھی،لیکن وہ جےپی کی زندگی بچانے میں کامیاب رہے تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 12 اکتوبر کو راج ماتا وجیا راجے سندھیا کی بھی یوم پیدائش ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی لوگوں کی خدمت میں گزار دی۔ وہ ایک شاہی خاندان سے تھیں۔
ان کے پاس جائیداد، طاقت اور دوسرے وسائل کی کوئی کمی نہیں تھی۔ پھر بھی انہوں نے اپنی زندگی ماں کی طرح محبت کے جذبے سے عوامی خدمت میں لگا دی۔
مسٹر مودی نے راج ماتا سے جری اپنی ایک یاد کا اشتراک کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کنیا کماری سے کشمیر ایکتا یاترا کے دوران دسمبر -
جنوری کی شدید سردی کے وقت وہ رات کو قریب بارہ ایک بجے مدھیہ پردیش کے گوالیار کے پاس شیوپوری پہنچے۔ رات کے قریب دو بجے جب وہ نہا کر سونے کی تیاری کررہے تھے تو کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا ۔
دروازہ کھولا تو راج ماتا صاحب سامنے کھڑی تھیں۔ وہ ان کےلئے ہلدی والا گرم دودھ لے کر آئی تھیں۔ اگلے دن پتہ چلا کہ اس سفر سے جڑے جو 30 سے 40 لوگ تھے ان سب کے کمرے میں جاکر انہوں نے اس دن رات کے دو بجے سب کو دودھ کا گلاس دیا۔
وزیراعظم نے کہا’’ماں کا پیار کیا ہوتا ہے ،محبت کیا ہوتی ہے ،اس واقعہ کو میں کبھی نہیں بھول سکتا ۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایسی عظیم ہستی نے ہماری زمین کو اپنی قربانی اور محنت سے سینچا ہے۔ آئیے ،ہم سب ان کے خواب کو اپنا عزم بنائیں۔‘‘
اپنے خطاب کے آخر میں مسٹر مودی نے ایک بار پھر ملک کے عوام کو کووڈ 19 کے تئیں محتاط کرتے ہوئے یاد دلایا کہ وہ ماسک ضرور رکھیں اور منہ اور ناک ڈھکے بغیر باہر نہ جائیں اور دو گز کی دوری کے اصول پر عمل کریں۔
انہوں نے کہا کہ یہ کچھ اصول اس وبا کے خلاف لڑائی کے ہتھیار ہیں،ہر شہری کی زندگی کو بچانے کے مضبوط وسائل ہیں۔انہوں نے پھر دہرایا کہ جب تک دوائی نہیں ،تب تک ڈھلائی نہیں۔‘‘