نئی دہلی: سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں یوپی میں 2017 سے اب تک 183 انکاؤنٹرس کی منصفانہ جانچ کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس میں پولیس حراست میں عتیق احمد اور اشرف کی ہلاکت بھی شامل ہے۔ ایک وکیل کی جانب سے دائر درخواست میں ان مقدمات کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج کی سربراہی میں ایک آزاد ماہر کمیٹی قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ درخواست سپریم کورٹ کے ایک وکیل نے دائر کی ہے۔ وکیل نے یہ عرضی اتر پردیش کے اسپیشل ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (قانون و نظم) کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے دائر کی ہے۔
سابق رکن پارلیمان عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کو پولیس کی موجودگی میں پریاگ راج کے ایک ہسپتال لے جانے کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ایڈوکیٹ وشال تیواری نے اس سلسلے میں ایک پی آئی ایل دائر کی ہے۔ انہوں نے 2017 سے اب تک 183 انکاونٹرس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے ایک سابق جج کی سربراہی میں ایک آزاد ماہر کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایڈوکیٹ نے 2017 کے بعد 183 انکاؤنٹر کے بارے میں اتر پردیش کے سینئر پولیس افسر کے بیان کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے قتل کی تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ دونوں کو پولیس کی موجودگی میں حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ایڈوکیٹ وشال تیواری نے اپنی پی آئی ایل میں سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو 2020 میں کانپور بکرو انکاؤنٹر میں مارے گئے وکاس دوبے اور اس کے ساتھیوں کی تحقیقات کرنے اور شواہد ریکارڈ کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایڈوکیٹ وشال تیواری نے پٹیشن قانون کی خلاف ورزی اور یوپی پولیس کی کارروائی پر سوال اٹھائے ہیں۔
مزید پڑھیں:۔ Ramgopal Yadav On Atiq Sons عتیق کے بقیہ بیٹوں کسی نہ کسی بہانے سے مار دیا جائے گا، پروفیسر رام گوپال
درخواست گزار نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ وکاس دوبے انکاؤنٹر جیسا واقعہ دوبارہ پیش آیا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے سنگین خطرہ ہیں اور اس طرح کی کارروائیاں انتشار کو فروغ دیتی ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قانون قتل یا فرضی پولیس انکاونٹرس کی مذمت کرتا ہے اور ایسی چیزیں جمہوری معاشرے میں نہیں ہو سکتیں۔ پولیس کو حتمی ثالث یا سزا دینے والا ادارہ بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔