قومی دارالحکومت کی پرانی دہلی میں بجلی کے تاروں کے جال بھیانک منظر پیش کررہے ہیں، ان تاروں سے وہاں کے لوگوں کو ہمیشہ خطرہ لاحق رہتا ہے اور کبھی بھی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ اگر ابھی خیال نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب کوئی بڑا حادثہ پیش آجائے۔
یاد رہے کہ سنہ 1911 میں پہلی مرتبہ دہلی میں بجلی کے تار ڈالے گئے، اس وقت کسی نے یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کی عمر اتنی لمبی ہوگی۔
دراصل جب کلکتہ سے دہلی دارالحکومت منتقل ہوئی تو انگریز حکمراں کے راستے میں روشنی کرنے کے لیے بجلی کے تار ڈالے گئے۔
سنہ 1911 میں جب لال قلعہ کے قرب و جوار میں چراغاں کیا گیا تو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ان کی عمر اتنی لمبی ہوگی۔
آج 100 سے زائد برس گزر گئے، لیکن پرانی دہلی کی عوام کا بجلی کے تاروں سے پیچھا نہیں چھوٹ سکا۔
اب ان بجلی کے تارو سے ہونے والے حادثات کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ اگر ابھی خیال نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ان تاروں کی وجہ سے کوئی بڑا حادثہ پیش نہ آجائے۔
فراش خانہ کے محمد قاسم نے کہا کہ ان کے علاقے میں اتنے تار ہے جیسے کہ وہ کسی تاروں کے جنگل میں رہتے ہوں، بار ہاں ان تاروں کی وجہ سے شارٹ سرکٹ سے آگ لگتی رہتی ہے لیکن حکومت کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔
وہیں کوچہ پنڈت کے رہنے والے محمد نفیس کا کہنا ہے کہ جب کبھی پرانی دہلی میں تاروں کی وجہ سے آگ لگتی ہے تو اسے بجھانے کے لیے گھنٹوں مشقت کرنی پڑتی ہے لیکن اگر کوئی بڑا حادثہ رونما ہو جائے تو اس سے جان و مال کا بہت نقصان ہو سکتا ہے۔
وہیں تاریخ داں عبد الستار بتاتے ہیں کہ 1911 میں جب اجلاس منعقد کیا گیا تب دہلی میں پہلی مرتبہ بجلی کے تار لگائے گئے تھے اور اس وقت یہ عوام کے درمیان خوشی کا باعث تھے لیکن اب عوام ان تاروں سے تنگ آ چکی ہے۔
بارہاں حکومت نے ان تاروں کو آسمان سے زیر زمیں لانے کی بات کہی ہے لیکن کبھی اسے عملی جامہ نہیں پہنا سکی۔