نئی دہلی: دہلی کی مساجد میں فلسطین کے لیے دعا نہ کرنے کی خبر پر لوگوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس خبر کی بنیاد پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان سے بات کی۔ جس میں انہوں نے کہا کہ جو بھی شریف انسان ہے ان سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطین کی تائید کریں۔ اسرائیل کی مخالفت کریں۔ ظلم کرنے والے کو روکیں اور مظلوم کا ساتھ دیں اور ان کے حق میں دعا کریں۔ انہوں نے کہا کہ یہ دعا صرف مسلمان نہیں کرتا ہے بلکہ غیر مسلم بھی کرسکتے ہیں۔ عیسائی بھی کر سکتے ہیں۔ دعا تو زمین و آسمان کے مالک سے کی جاتی ہے۔ تو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے افراد کو دعا کرنی چاہیے کہ دنیا میں ظلم وستم ختم ہو۔ خاص کر اسرائیل کا ظلم ختم ہو۔
یہ بھی پڑھیں:
ہندوستان کی پالیسی ہمیشہ فلسطین کے ساتھ رہی ہے، رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ یہ بھی دعا کی جائے کہ بھارت کے موجودہ حکمران کو یہ توفیق ملے کہ وہ اسرائیل کے موجودہ رہنما بنیامین نتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیکر اس کے خلاف بین الاقوامی کریمنل کورٹ میں اس معاملے کو اٹھائیں۔ آخر دعا کرنے میں کیا حرج ہے؟ انہوں نے کہا کہ جو شخص کچھ بھی نہیں کر سکتا وہ کم سے کم دعا تو کر سکتا ہے اور آپ اس پر بھی پابندی لگا رہے ہیں۔ وہیں سینیر صحافی جان دیال نے کہا کہ میں خود دہلی میں ہی رہتا ہوں میں نے جب یہ سنا کہ دہلی پولیس نے دہلی کی مساجد کے آئمہ کو کہا ہے کہ وہ امن کے لیے دعا مت کیجیے فلسطین کے حق میں دعا نہ کیجیے یہ سن کر میں چونک گیا، شکر ہے کہ انہوں نے مساجد کے آئمہ سے یہ نہیں کہا کہ وہ اسرائیل کی جیت کے لیے دعا کریں، انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پولیس مسلمانوں، عیسائیوں اور ہندو مذہب کے لوگوں یہ کب سے کہنے لگ گئی ہے کہ۔وہ اپنی مذہبی مقامات پر کس کے لیے دعا کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم دعا کرتے ہیں اپنے وزیراعظم کے لیے صدر جمہوریہ کے لیے اور پوری دنیا میں امن و امان کے لیے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ انسان دوسرے انسانوں کا خون نہ چوسیں اور اگر یہ گناہ فلسطین کی عوام کے لیے دعا کرنا تو سب سے پہلے میں یہ فلسطینی عوام کے حق میں دعا کروں گا کہ ان پر جو ظلم و ستم کیا جا رہا ہے وہ بند ہو۔ واضح رہے کہ دہلی پولیس کی جانب سے کسی بھی مسجد کے امام کو کوئی بھی تحریری نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے مطابق اس کے پیچھے یہ وجہ بتائی گئی تھی کہ ملک میں پہلے ہی نفرت کی فضا قائم ہے ایسے میں اگر کسی دیگر ممالک کے درمیان جاری جنگ پر یہاں نفرت پھیلتی ہے تو ملک کا امن و امان خراب ہوگا۔ اس لیے دعا میں نام لینے سے پرہیز کیا جائے۔