ETV Bharat / state

'ون نیشن۔ون الیکشن کی ضرورت' - ایک قوم ایک انتخاب کو ملک کی ضرورت

وزیر اعظم نریندر مودی نے ’ایک قوم ایک انتخاب' کو ملک کی ضرورت قرار دیتے ہوئے آج کہا کہ مختلف وقت پر انتخابات سے اخراجات تو بڑھتے ہی ہیں ساتھ ہی ترقیاتی کام بھی متاثر ہوتے ہیں۔ نریندر مودی نے گجرات کے کیوڈیا میں پریسائزڈ افسران کے 80 ویں آل انڈیا کانفرنس کی اختتامی نشست سے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے خطاب کیا۔

One Nation - One Election Needed: Modi
ون نیشن۔ون الیکشن کی ضرورت: مودی
author img

By

Published : Nov 26, 2020, 10:37 PM IST

نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ کہا،’ایک اہم موضوع ہے انتخابات کا۔ ون نیشن۔ ون الیکشن صرف ایک بحث کا موضوع نہیں ہے بلکہ یہ بھارت کی ضرورت بھی ہے۔ ہر کچھ مہینے میں بھارت میں کہیں نہ کہیں بڑے الیکشن ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس سے ترقیاتی کاموں پر جو اثر پڑتا ہے، اس سے آپ سبھی بخوبی واقف ہیں۔ ایسے میں ون نیشن ون الیکشن پر سنجیدگی سے مطالعہ اور غور و خوض کرنا ضروی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس میں پریسائزڈ افسران رہنمائی اور پہل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے لوک سبھا، اسمبلی یا پھر پنچایت انتخابات‘ سب کے لیے ایک ہی ووٹر لسٹ بنائی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا،’اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے راستہ بنانا ہوگا۔ آج ہر ایک کے لیے الگ الگ ووٹر لسٹ ہے، ہم کیوں خرچ کر رہے ہیں، وقت کیوں برباد کر رہے ہیں۔ اب ہر ایک کے لیے 18 سال سے اوپر تک طے ہے۔ پہلے تو عمر میں فرق تھا، اس لیے تھوڑا الگ رہا، اب کوئی ضرورت نہیں ہے‘۔

  • वन नेशन वन इलेक्शन सिर्फ एक चर्चा का विषय नहीं है, बल्कि यह भारत की जरूरत है।

    ऐसे में इस पर गहन अध्ययन और मंथन आवश्यक है। इसमें पीठासीन अधिकारियों की भी बड़ी भूमिका है। pic.twitter.com/83JUIXw5bU

    — Narendra Modi (@narendramodi) November 26, 2020 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

وزیر اعظم نے کہا کہ آج یوم آئین بھی ہے اور آئین کی حفاظت کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والی پریسائزڈ افسران کی کانفرنس بھی ہے۔ امسال پریسائزڈ افسران کی تقریب صدی بھی ہے۔ انہوں نے کہا،’آج ڈاکٹر راجیندر پرساد اور بابا صاحب امبیڈکر سے لے کر آئین ساز اسمبلی کے ان تمام اراکین کو خراج عقیدت ادا کرنے کا دن ہے‘ جن کے لیے انتھک کوششوں سے ہم سبھی ملک کے باشندوں کو آئین ملا۔ آج کا دن باپو کی تحریک کو، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے عزم کو سلام کرنے کا دن ہے۔ ایسے ہی کئی دور بیں رہنماؤں نے آزاد ہندوستان کے تعمیر نو کا راستہ طے کیا تھا‘۔
انہوں نے سنہ 2008 میں آج ہی کے دن ہوئے ممبئی دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے لوگوں کو بھی انہوں نے یاد کیا۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان ایک نئے طرح کی دہشت گردی سے لڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا،’ممبئی حملے کے زخم ہندوستان نہیں بھول سکتا۔ اب آج کا ہندوستان نئی پالیسی۔نئی روایت کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ممبئی حملے جیسی سازشوں کو ناکام کرنے والے، دہشت گردی کو منھ توڑ جواب دینے والے، ہندوستان کی دفاع میں ہردم سرگرم ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کو بھی میں آج سیلوٹ کرتا ہوں‘۔
ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ 1970 کی دہائی کی کوشش اقتدار کے عدم ارتکاز (ڈی۔سینٹرلائیزیشن) کے خلاف تھی لیکن اس کا جواب بھی آئین کے اندر سے ہی ملا۔ آئین میں اقتدار کے ڈی۔سینٹرلائیزیشن اور اس کے تُک پر گفتگو کی گئی ہے۔ ایمرجنسی کے بعد اس واقعہ سے سبق لے کر مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ باہم توازن قائم کرکے مضبوط ہوئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ اس لیے ممکن نہیں ہو سکا کیونکہ 130 کروڑ ہندوستانیوں کی حکومت کے ان ستونوں میں اعتماد تھا اور یہی اعتماد وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوا۔

جمہوریت میں پریسائزڈ افسران کے کردار کو بے حد اہم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا،’پریسائزڈ افسر، قانون ساز کے بطور آئین اور ملک کے عام آدمی کو جوڑنے والی ایک بہت اہم کڑی ہیں۔ رکن اسمبلی ہونے کے ساتھ آپ اسمبلی کے اسپیکر بھی ہیں۔ ایسے میں ہمارے آئین کے تینوں اہم جزو۔ مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے مابین بہتر ہم آہنگی قائم کرنے میں آپ بہت بڑا کردا ادا کر سکتے ہیں۔ آپ نے اپنے کانفرنس مین اس پر کافی گفتگو بھی کی ہے۔ آئین کی حفاظت میں عدلیہ کا بھی اپنا کردار ہوتا ہے۔ لیکن اسپیکر قانون بنانے والے ادارے کا چہرہ ہوتا ہے۔ اس لیے اسپیکر ایک طرح سے آئین کی حفاظتی شیلڈ کا پہلا محافظ بھی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ کووِڈ۔19 وبا کے وقت ملک کی پارلیمنٹ نے قومی مفاد سے منسلک قوانین کے لیے، ’آتم نربھر بھارت‘ کے لیے، اہم قوانین کے لیے جس مستعدی اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ اس دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں طے وقت سے زیادہ کام ہوا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہ میں بھی تخفیف کرکے اپنے عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی ریاستوں کے اراکین اسمبلی نے بھی اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ دے کر کورونا کے خلاف لڑائی میں اپنا تعاون دیا ہے۔ اس سے عوام کا بھروسہ مضبوط ہوتا ہے۔
وزیراعظم نے پروجیکٹس کو زیر التواء رکھنے کی روش کے خلاف آگاہ کیا۔ انہوں نے سردار سروور پروجیکٹ کی مثال دی جو کئی برسوں سے زیر التواء تھی اور جس کی وجہ سے گجرات، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور راجستھان کے باشندوں کو ان اہم فوائد سے محروم رہنا پڑا جو انھیں اس پل کے بالآخر تعمیر ہو جانے سے حاصل ہونے والے تھے۔

مسٹر مودی نے ذمہ داری ادا کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ذمہ داری پر عمل آوری کو اختیارات، وقار اور خود اعتمادی بڑھانے والے اہم وجوہ کی طرح لیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا،’ہمارے آئین کی بہت ساری خصوصیات ہیں لیکن ان میں سے ایک خصوصی ذمہ داری پر عمل آوری کو دی گئی اہمیت ہے۔ گاندھی جی اس کے بہت بڑے حمایتی تھے۔ انہوں نے پایا کہ اختیارات اور ذمہ داریوں کے مابین بڑا قریب کا رشتہ ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ جب ہم اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں تو حقوق خود بہ خود مل جاتے ہیں‘۔
وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ آئینی اقدار کو عام کیا جانا چاہیے۔ ’جس طرح کے وائی سی۔ نو یور کسٹمبر ڈیجیٹل سکیورٹی کی چابی ہے، اسی طرح کے وائی سی۔ نو یور کانسٹی ٹیوشن، آئینی تحفظ کی بڑی گارنٹی ہو سکتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قوانین کی زبان بہت آسان اور عوام کے سمجھ میں آنے والی ہونی چاہیے تاکہ وہ ہر قانون کو ٹھیک سے سمجھ سکیں۔ پرانے پڑ چکے قوانین کو رد کرنے کا عمل بھی آسان ہونا چاہیے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ایک ایسا نظام نافذ کیا جائے جس میں جیسے ہی کسی پرانے قانون میں اصلاح کریں، تو پرانا قانون از خود مسترد ہو جائے۔
انہوں نے ’اسٹودنٹ اسمبلی‘ کے انعقاد کا مشورہ دیا جن کی رہنمائی اور نظامت خود پریسائزڈ افسران کے ذریعے کیا جائے۔ اس موقع پر گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت، لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا، پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی اور مختلف اسمبلیوں کے پریسائزڈ افسران بھی موجود تھے۔

نریندر مودی نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ کہا،’ایک اہم موضوع ہے انتخابات کا۔ ون نیشن۔ ون الیکشن صرف ایک بحث کا موضوع نہیں ہے بلکہ یہ بھارت کی ضرورت بھی ہے۔ ہر کچھ مہینے میں بھارت میں کہیں نہ کہیں بڑے الیکشن ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس سے ترقیاتی کاموں پر جو اثر پڑتا ہے، اس سے آپ سبھی بخوبی واقف ہیں۔ ایسے میں ون نیشن ون الیکشن پر سنجیدگی سے مطالعہ اور غور و خوض کرنا ضروی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس میں پریسائزڈ افسران رہنمائی اور پہل کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے لوک سبھا، اسمبلی یا پھر پنچایت انتخابات‘ سب کے لیے ایک ہی ووٹر لسٹ بنائی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا،’اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے راستہ بنانا ہوگا۔ آج ہر ایک کے لیے الگ الگ ووٹر لسٹ ہے، ہم کیوں خرچ کر رہے ہیں، وقت کیوں برباد کر رہے ہیں۔ اب ہر ایک کے لیے 18 سال سے اوپر تک طے ہے۔ پہلے تو عمر میں فرق تھا، اس لیے تھوڑا الگ رہا، اب کوئی ضرورت نہیں ہے‘۔

  • वन नेशन वन इलेक्शन सिर्फ एक चर्चा का विषय नहीं है, बल्कि यह भारत की जरूरत है।

    ऐसे में इस पर गहन अध्ययन और मंथन आवश्यक है। इसमें पीठासीन अधिकारियों की भी बड़ी भूमिका है। pic.twitter.com/83JUIXw5bU

    — Narendra Modi (@narendramodi) November 26, 2020 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

وزیر اعظم نے کہا کہ آج یوم آئین بھی ہے اور آئین کی حفاظت کرنے میں اہم کردار ادا کرنے والی پریسائزڈ افسران کی کانفرنس بھی ہے۔ امسال پریسائزڈ افسران کی تقریب صدی بھی ہے۔ انہوں نے کہا،’آج ڈاکٹر راجیندر پرساد اور بابا صاحب امبیڈکر سے لے کر آئین ساز اسمبلی کے ان تمام اراکین کو خراج عقیدت ادا کرنے کا دن ہے‘ جن کے لیے انتھک کوششوں سے ہم سبھی ملک کے باشندوں کو آئین ملا۔ آج کا دن باپو کی تحریک کو، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے عزم کو سلام کرنے کا دن ہے۔ ایسے ہی کئی دور بیں رہنماؤں نے آزاد ہندوستان کے تعمیر نو کا راستہ طے کیا تھا‘۔
انہوں نے سنہ 2008 میں آج ہی کے دن ہوئے ممبئی دہشت گردانہ حملے میں مارے گئے لوگوں کو بھی انہوں نے یاد کیا۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج ہندوستان ایک نئے طرح کی دہشت گردی سے لڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا،’ممبئی حملے کے زخم ہندوستان نہیں بھول سکتا۔ اب آج کا ہندوستان نئی پالیسی۔نئی روایت کے ساتھ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہا ہے۔ ممبئی حملے جیسی سازشوں کو ناکام کرنے والے، دہشت گردی کو منھ توڑ جواب دینے والے، ہندوستان کی دفاع میں ہردم سرگرم ہمارے سکیورٹی اہلکاروں کو بھی میں آج سیلوٹ کرتا ہوں‘۔
ایمرجنسی کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کہا کہ 1970 کی دہائی کی کوشش اقتدار کے عدم ارتکاز (ڈی۔سینٹرلائیزیشن) کے خلاف تھی لیکن اس کا جواب بھی آئین کے اندر سے ہی ملا۔ آئین میں اقتدار کے ڈی۔سینٹرلائیزیشن اور اس کے تُک پر گفتگو کی گئی ہے۔ ایمرجنسی کے بعد اس واقعہ سے سبق لے کر مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ باہم توازن قائم کرکے مضبوط ہوئے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ یہ اس لیے ممکن نہیں ہو سکا کیونکہ 130 کروڑ ہندوستانیوں کی حکومت کے ان ستونوں میں اعتماد تھا اور یہی اعتماد وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوا۔

جمہوریت میں پریسائزڈ افسران کے کردار کو بے حد اہم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا،’پریسائزڈ افسر، قانون ساز کے بطور آئین اور ملک کے عام آدمی کو جوڑنے والی ایک بہت اہم کڑی ہیں۔ رکن اسمبلی ہونے کے ساتھ آپ اسمبلی کے اسپیکر بھی ہیں۔ ایسے میں ہمارے آئین کے تینوں اہم جزو۔ مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ کے مابین بہتر ہم آہنگی قائم کرنے میں آپ بہت بڑا کردا ادا کر سکتے ہیں۔ آپ نے اپنے کانفرنس مین اس پر کافی گفتگو بھی کی ہے۔ آئین کی حفاظت میں عدلیہ کا بھی اپنا کردار ہوتا ہے۔ لیکن اسپیکر قانون بنانے والے ادارے کا چہرہ ہوتا ہے۔ اس لیے اسپیکر ایک طرح سے آئین کی حفاظتی شیلڈ کا پہلا محافظ بھی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ کووِڈ۔19 وبا کے وقت ملک کی پارلیمنٹ نے قومی مفاد سے منسلک قوانین کے لیے، ’آتم نربھر بھارت‘ کے لیے، اہم قوانین کے لیے جس مستعدی اور عزم کا مظاہرہ کیا ہے وہ بے مثال ہے۔ اس دوران پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں طے وقت سے زیادہ کام ہوا ہے۔ اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہ میں بھی تخفیف کرکے اپنے عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ کئی ریاستوں کے اراکین اسمبلی نے بھی اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ دے کر کورونا کے خلاف لڑائی میں اپنا تعاون دیا ہے۔ اس سے عوام کا بھروسہ مضبوط ہوتا ہے۔
وزیراعظم نے پروجیکٹس کو زیر التواء رکھنے کی روش کے خلاف آگاہ کیا۔ انہوں نے سردار سروور پروجیکٹ کی مثال دی جو کئی برسوں سے زیر التواء تھی اور جس کی وجہ سے گجرات، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور راجستھان کے باشندوں کو ان اہم فوائد سے محروم رہنا پڑا جو انھیں اس پل کے بالآخر تعمیر ہو جانے سے حاصل ہونے والے تھے۔

مسٹر مودی نے ذمہ داری ادا کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ ذمہ داری پر عمل آوری کو اختیارات، وقار اور خود اعتمادی بڑھانے والے اہم وجوہ کی طرح لیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا،’ہمارے آئین کی بہت ساری خصوصیات ہیں لیکن ان میں سے ایک خصوصی ذمہ داری پر عمل آوری کو دی گئی اہمیت ہے۔ گاندھی جی اس کے بہت بڑے حمایتی تھے۔ انہوں نے پایا کہ اختیارات اور ذمہ داریوں کے مابین بڑا قریب کا رشتہ ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ جب ہم اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہیں تو حقوق خود بہ خود مل جاتے ہیں‘۔
وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ آئینی اقدار کو عام کیا جانا چاہیے۔ ’جس طرح کے وائی سی۔ نو یور کسٹمبر ڈیجیٹل سکیورٹی کی چابی ہے، اسی طرح کے وائی سی۔ نو یور کانسٹی ٹیوشن، آئینی تحفظ کی بڑی گارنٹی ہو سکتا ہے‘۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے قوانین کی زبان بہت آسان اور عوام کے سمجھ میں آنے والی ہونی چاہیے تاکہ وہ ہر قانون کو ٹھیک سے سمجھ سکیں۔ پرانے پڑ چکے قوانین کو رد کرنے کا عمل بھی آسان ہونا چاہیے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ایک ایسا نظام نافذ کیا جائے جس میں جیسے ہی کسی پرانے قانون میں اصلاح کریں، تو پرانا قانون از خود مسترد ہو جائے۔
انہوں نے ’اسٹودنٹ اسمبلی‘ کے انعقاد کا مشورہ دیا جن کی رہنمائی اور نظامت خود پریسائزڈ افسران کے ذریعے کیا جائے۔ اس موقع پر گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت، لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا، پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی اور مختلف اسمبلیوں کے پریسائزڈ افسران بھی موجود تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.