حکومت ہند کی وزارت اقلیتی امور کی طرف سے 20 مارچ کو جاری کردہ ایک غیر آئینی اور امتیازی حکم کے مطابق، اس سال صرف مرکزی پولیس فورس کے ملازمین کو حج افسران اور حج اسسٹنٹ کے طور پر حج 2023 کے دوران سعودی عرب میں خدمات انجام دینے کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ دیگر ریاستوں اور محکموں میں کام کرنے والے مسلم ملازمین کو اس کے لیے ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں دہلی ہائی کورٹ کے وکیل اور سماجی کارکن و رکن سابق دہلی اقلیتی کمیشن مشاورتی کمیٹی رئیس احمد نے اس حکم کو فوری طور پر واپس لینے اور ملک کی دیگر ریاستوں اور محکموں کے ملازمین کو منتخب کرنے کی اپیل کی ہے اور اس حکم کو آئینی بنیادی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب میں ہر سال حج کے دوران تمام محکموں اور ریاستوں کے مسلمان سرکاری ملازمین انتظامی خدمات کے لیے حاجیوں کی خدمت کے لیے جاتے رہے ہیں۔ 2014 تک اس سروس کے لیے صرف مرد ملازمین جاتے تھے لیکن چونکہ چند سال قبل خواتین کو بغیر کسی رشتہ دار کے حج کرنے کی اجازت دی گئی تھی اس لیے خواتین ملازمین کو بھی ان خدمات کے لیے منتخب کیا جا رہا ہے۔ ایڈووکیٹ رئیس نے کہا کہ حج عبادت ہے میدان جنگ نہیں جہاں صرف پولیس فورس کے لوگ بھیجے جا رہے ہیں۔ ہر سال تمام محکموں کے تمام ملازمین کو بلا تفریق اس خدمت کا موقع دیا جاتا رہا ہے اور وہ مکمل امن و سکون کے ساتھ اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح تمام ریاستوں کے محکموں سے مسلم ملازمین کا انتخاب کیا جائے۔
ایڈوکیٹ رئیس نے بتایا کہ کئی سرکاری ملازمین نے اس حکمنامہ پر اعتراض کرتے ہوئے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اس حکم کو واپس لے اور تمام اہل مسلم سرکاری ملازمین کو خدمت کا موقع فراہم کرے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر حکومت ہند فوری طور پر اس غیر آئینی حکم کو واپس نہیں لیتی ہے تو اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ لہذا ہم حکومت ہند سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس حکم کو فوری طور پر واپس لے اور تمام سرکاری مسلم ملازمین کو اس عظیم عبادت کے فریضے کی ادایگی میں حاجیوں کی خدمت کا موقع فراہم کرے۔
مزید پڑھیں:Hajj 2023 حج 2023 کے لیے درخواست جمع کرنے کی تاریخ کا اختتام