ETV Bharat / state

' کشمیر میں مظاہروں کی اجازت نہیں'

جموں و کشمیر پولیس کا کہنا ہے کہ وادی کی صورتحال بہتر ہونے اور عائد پابندیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے تک دھرنوں سمیت کسی بھی طرح کے احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

author img

By

Published : Oct 19, 2019, 1:43 PM IST

کشمیر میں مظاہروں کی اجازت نہیں


جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں اجتجاجی مظاہروں کی اجازت نہیں ہے

واضح رہے کہ اس سے قبل سرینگر میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن ثریا اور بیٹی صفیہ سمیت کئی کشمیری خواتین کو پولیس نے احتجاج کے دوران حراست میں لیا تھا۔یہ خواتین دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کی تقسیم کاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔مظاہرین میں خواتین کارکن اور معروف ماہرین تعلیم شامل تھیں۔

ان خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن میں بنیادی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ان پلے کارڈوں پر یہ بھی لکھا تھا کہ کشمیری دلہنیں فروخت کیلئے نہیں ہیں اور' ملک کو جھوٹ بول کر گمراہ کرنا بند کرو'۔

دلباغ سنگھ نے کہا کہ' ہماری کوشش ہوگی کہ ایسی کسی بھی سرگرمی کی اجازت سے قبل امن کو مزید استحکام بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران خواتین نے چند ایسے پلے کارڈز اٹھائے تھے جوکہ' بہت اچھے' نہیں تھے اور ان کے پاس یقینی طور پر امن و امان کے مضمرات ہیں، اسی وجہ سے ان خواتین کے خلاف کارروائی کی گئی۔

پولیس سربراہ نے کہا کہ اشتعال انگیزی صرف ان الفاظ کے ذریعہ نہیں آتی جو آپ بولتے ہو۔ اشتعال انگیزی ان پلے کارڈز سے آتی ہے جو آپ اٹھاتے ہیں۔

دلباغ سنگھ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ سرینگر میں پابندیاں عائد ہیں اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین مظاہرین کو ڈپٹی کمشن میں جاکر اجازت لینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔


واضح رہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے وادی میں مسلسل 76ویں روز پابندیاں اور بندشیں عائد ہے۔

دفعہ 370 کے خاتمے سے قبل ہی مرکزی حکومت نے ہند نواز سیاسی جماعتوں کے سربرہان اور کئی رہنماؤں کو نظر بند کیا گیا ہیں۔ ان رہنماؤں میں تین سابق وزرائے اعلی بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا تھا، گذشتہ دنوں حکومت نے واضح کیا ہے کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔


جموں و کشمیر پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں اجتجاجی مظاہروں کی اجازت نہیں ہے

واضح رہے کہ اس سے قبل سرینگر میں سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بہن ثریا اور بیٹی صفیہ سمیت کئی کشمیری خواتین کو پولیس نے احتجاج کے دوران حراست میں لیا تھا۔یہ خواتین دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کی تقسیم کاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔مظاہرین میں خواتین کارکن اور معروف ماہرین تعلیم شامل تھیں۔

ان خواتین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن میں بنیادی حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ان پلے کارڈوں پر یہ بھی لکھا تھا کہ کشمیری دلہنیں فروخت کیلئے نہیں ہیں اور' ملک کو جھوٹ بول کر گمراہ کرنا بند کرو'۔

دلباغ سنگھ نے کہا کہ' ہماری کوشش ہوگی کہ ایسی کسی بھی سرگرمی کی اجازت سے قبل امن کو مزید استحکام بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج کے دوران خواتین نے چند ایسے پلے کارڈز اٹھائے تھے جوکہ' بہت اچھے' نہیں تھے اور ان کے پاس یقینی طور پر امن و امان کے مضمرات ہیں، اسی وجہ سے ان خواتین کے خلاف کارروائی کی گئی۔

پولیس سربراہ نے کہا کہ اشتعال انگیزی صرف ان الفاظ کے ذریعہ نہیں آتی جو آپ بولتے ہو۔ اشتعال انگیزی ان پلے کارڈز سے آتی ہے جو آپ اٹھاتے ہیں۔

دلباغ سنگھ نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ سرینگر میں پابندیاں عائد ہیں اس کا احترام کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین مظاہرین کو ڈپٹی کمشن میں جاکر اجازت لینے کا مشورہ دیا گیا تھا۔


واضح رہے کہ 5 اگست کو جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے وادی میں مسلسل 76ویں روز پابندیاں اور بندشیں عائد ہے۔

دفعہ 370 کے خاتمے سے قبل ہی مرکزی حکومت نے ہند نواز سیاسی جماعتوں کے سربرہان اور کئی رہنماؤں کو نظر بند کیا گیا ہیں۔ ان رہنماؤں میں تین سابق وزرائے اعلی بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے خلاف پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کیا گیا تھا، گذشتہ دنوں حکومت نے واضح کیا ہے کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

Intro:Body:

No Protests Allowed In Kashmir Till Situation Improves: Police Chief Dilbagh Singh


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.