نئی دہلی: ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے دعوی کیا کہ اس وقت ملک کے حالات جس قدرتشویشناک ہیں اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اقتدارکی تبدیلی کے بعد یکے بعد دیگرے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ ہندوستان فسطائیت کی گرفت میں ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعیۃعلماء ہندکی مجلس عاملہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے دعوی کیا کہ فرقہ پرست اورانتشارپسند قوتوں کا بول بالاہوگیاہے۔ ادھر چند برسوں کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتاآرہاہے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے نیا نیاتنازعہ کھڑاکرکے مسلمانوں کو نہ صرف اکسانے کی کوششیں ہورہی ہیں بلکہ انہیں کنارے لگادینے کی منصوبہ بندسازشیں ہورہی ہیں لیکن اس سب کے باوجودمسلمانوں نے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ بے مثال ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں آگے بھی اسی طرح صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں اس وقت بھی مختلف بہانوں سے اکسانے اورمشتعل کرنے کی کوششیں کرسکتی ہیں کیونکہ مختلف ریاستوں میں الیکشن ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جدوجہد آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا، وہ یہ ہندوستان ہرگزنہیں ہے، ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب دیکھاتھا جس میں بسنے والے تمام لوگ ہمیشہ کی طرح نسل برادری اورمذہب سے اوپر اٹھ کر امن وآتشی کے ساتھ رہ سکیں، اس لئے ہر محب وطن کا ملک سے محبت کا یہ تقاضا ہے کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر مسلم اورغیرمسلم متحد ہوکر اس کے خلاف آوازاٹھائیں اورہزاروں سال پرانی تاریخ کو زندہ رکھیں۔
مولانا مدنی نے موجودہ حالات میں حکومتوں کے رویہ پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ جو کام عدالتوں کاتھا وہ اب حکومتیں کررہی ہیں، ایسالگتاہے کہ ہندوستان میں اب قانون کی حکمرانی کا دورختم ہوگیا ہے۔ ان کے منھ سے نکلنے والے الفاظ قانون ہیں اورگھروں کو زمین دوزکرکے موقع پر فیصلہ کرنا آئین کی نئی ریت بن گئی ہے۔ ان حالات میں پورے ملک کے مظلوموں کو انصاف دلانے اورملک کے آئین اورجمہوریت کو بچانے اورقانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے ہم نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے اس امید کہ ساتھ کہ دیگرمعاملوں کی طرح ان سب معاملوں میں بھی انصاف ملے گا۔ انہوں نے آگے کہاکہ جب برسراقتدارلوگ آئینی فرض اداکرنے میں ناکام ہوجائیں اورمظلوموں کی آوازسن کر خاموش رہیں توعدالتیں ہی انصاف کے لئے واحد سہارارہ جاتی ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست افراد سے اپیل کرتا ہے کہ ردعمل اورجذباتی سیاست کی بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اور ملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں۔
اس موقع پر منظور کردہ تجاویز میں ملک کی موجودہ صورت حال پر غور و خوض کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند نے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی امن و قانون کی ابتری، اقلیتوں اورخصوصا مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیادپر امتیازی سلوک اورخاص طور پر فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ دہشت گردی کے رویہ پر سخت تشویش کا اظہارکیا۔
آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق اجلاس میں کئی اہم تجاویز منظورکی گئیں جس میں ایک اہم تجویز میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت اورکھلی دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تمام انصاف پسند لوگوں اوربین الاقومی اداروں سے اسے فوری طورپر روکنے کے لئے مؤثراقدامات کرنے کی اپیل کی گئی۔ایک دوسری اہم تجویز میں کہا گیا کہ آزادی کے بعد ہندوستان کے لئے جو دستوربنایا گیا اس کی بنیادسیکولرزم تھی لیکن آزادی کے فورا بعد دستورکو غیرسیکولربنانے کی فرقہ پرست عناصر کی طرف سے جب ریشہ دوانیاں شروع ہوئیں توآنجہانی اندراگاندھی کے ذریعہ پانچویں لوک سبھا میں بیالیسواں ترمیمی ایکٹ 1976 منظورہوا اورادستورکی تمہید میں لفظ سوشلسٹ اورسیکولر کا اضافہ کیا گیا۔ مجلس عاملہ میں وضاحت کی گئی کہ ملک کے مطبوعہ مروجہ آئین جس میں سوشلسٹ اورسیکولرزم لفظ سے انحراف کرکے آئین کو تقسیم کرنا ایک خطرناک سازش ہے ایساہواتوملک پر اس کے انتہائی مضمراثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ہم کو نہ صرف اس کا تعاقب کرنا چاہئے بلکہ اس طرح کی سازش کی سنجیدگی سے مخالفت کی جانی چاہئے، اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کے امن واتحاد اور یگجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
تجویز میں کہا گیا کہ فرقہ پرست طاقت کے ذریعہ آئین و قانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تار تارکررہی ہے اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز اور عصری تعلیم اور اصلاح معاشرہ کے طریقہ کار نیز دفتری و جماعتی امور پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔اجلاس میں مختلف معاملوں کو لیکر جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی جو مقدمات لڑرہی ہے ان کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔جمعیۃعلماء ہند کی بے لوث خدمات بالخصوص میوات کے علاقوں میں ریلیف وبازآبادکاری،کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ کیا گیاکہ جو لوگ فسادکے الزام میں جیلوں میں ہیں اگر ان کے گھرمیں کوئی کفیل نہیں ہے توان کی جیل سے رہائی تک اہل خانہ کو ماہانہ پانچ ہزارروپے کی امدادکے ساتھ یہ بھی طے پایاکہ جن کے مکانات منہدم کردیئے گئے ہیں اورجو بے زمین ہیں انہیں مکان کے لئے زمین خرید کر دی جائے گی، ملزمین کی قانونی وسماجی مدد،دہشت گردی کے الزام میں گرفتارلوگوں کی قانونی مدداورتعلیمی وظائف وغیرہ کاجائزہ لیاگیا ان اقدامات کی وجہ سے ماضی کے مقابلہ میں جمعیۃعلماء ہند کی طرف نئے لوگوں کا رجحان اوراعتمادمزیدبڑھاہے جس کی وجہ سے جمعیۃکی ممبرشپ حاصل کرنے کے لئے لوگ خاص کر نوجوان طبقہ بہت زیادہ دلچسپی دکھارہا ہے، ایک معتدبہ تعدادجمعیۃکے دفاتر مستقل رابطہ میں ہے، واضح رہے کہ پچھلے ٹرم میں ممبران کی تعدادتقریبا ایک کروڑپندرہ لاکھ تھی جبکہ آنے والے ٹرم میں ممبرسازی میں اضافہ کی قوی امید ہے۔
اجلاس میں صدرجمعیۃکے علاوہ مفتی سید معصوثاقب ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند، مولانا سیداسجد مدنی، مولاناسیداشہد رشیدی،پروفیسر نصراللہ تملناڈو،مولانا بدراحمد مجبیبی پٹنہ، مولاناعبداللہ ناصربنارس،قاری شمس الدین کلکتہ، مفتی اشفاق احمد اعظم گڑھ،حاجی سلامت اللہ دہلی، فضل الرحمن قاسمی،کے علاوہ بطورمدعوئین خصوصی مولانا محمد راشد راجستھان، مولانا محمد خالد ہریانہ، مولانا مکرم الحسینی بہار،مولانا حلیم اللہ قاسمی ممبئی، مولانا عبدالقیوم مالیگاؤں، مفتی حبیب اللہ جودھپور،وغیرہ شریک ہوئے۔ یو این آئی۔
Maulana Arshadmadani ہندوستان میں کسی ایک نظریہ ومذہب کی بالادستی چلنے والی نہیں یہ ملک سب کا ہے، مولانا ارشدمدنی - یہ ملک سب کا ہے مولانا ارشدمدنی
مولانا مدنی نے موجودہ حالات میں حکومتوں کے رویہ پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ جو کام عدالتوں کاتھا وہ اب حکومتیں کررہی ہیں، ایسا لگتاہے کہ ہندوستان میں اب قانون کی حکمرانی کا دورختم ہوگیا ہے۔
Published : Oct 16, 2023, 7:16 PM IST
نئی دہلی: ملک کے موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے دعوی کیا کہ اس وقت ملک کے حالات جس قدرتشویشناک ہیں اس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی اقتدارکی تبدیلی کے بعد یکے بعد دیگرے جو واقعات پیش آرہے ہیں اس سے اب اس میں کوئی شبہ نہیں رہ گیا ہے کہ ہندوستان فسطائیت کی گرفت میں ہے۔ یہ بات انہوں نے جمعیۃعلماء ہندکی مجلس عاملہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے دعوی کیا کہ فرقہ پرست اورانتشارپسند قوتوں کا بول بالاہوگیاہے۔ ادھر چند برسوں کے دوران اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوتاآرہاہے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے نیا نیاتنازعہ کھڑاکرکے مسلمانوں کو نہ صرف اکسانے کی کوششیں ہورہی ہیں بلکہ انہیں کنارے لگادینے کی منصوبہ بندسازشیں ہورہی ہیں لیکن اس سب کے باوجودمسلمانوں نے جس صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ بے مثال ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں آگے بھی اسی طرح صبروتحمل کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں اس وقت بھی مختلف بہانوں سے اکسانے اورمشتعل کرنے کی کوششیں کرسکتی ہیں کیونکہ مختلف ریاستوں میں الیکشن ہونے والا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جدوجہد آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا، وہ یہ ہندوستان ہرگزنہیں ہے، ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب دیکھاتھا جس میں بسنے والے تمام لوگ ہمیشہ کی طرح نسل برادری اورمذہب سے اوپر اٹھ کر امن وآتشی کے ساتھ رہ سکیں، اس لئے ہر محب وطن کا ملک سے محبت کا یہ تقاضا ہے کہ مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر مسلم اورغیرمسلم متحد ہوکر اس کے خلاف آوازاٹھائیں اورہزاروں سال پرانی تاریخ کو زندہ رکھیں۔
مولانا مدنی نے موجودہ حالات میں حکومتوں کے رویہ پر تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ جو کام عدالتوں کاتھا وہ اب حکومتیں کررہی ہیں، ایسالگتاہے کہ ہندوستان میں اب قانون کی حکمرانی کا دورختم ہوگیا ہے۔ ان کے منھ سے نکلنے والے الفاظ قانون ہیں اورگھروں کو زمین دوزکرکے موقع پر فیصلہ کرنا آئین کی نئی ریت بن گئی ہے۔ ان حالات میں پورے ملک کے مظلوموں کو انصاف دلانے اورملک کے آئین اورجمہوریت کو بچانے اورقانون کی بالادستی قائم رکھنے کے لئے ہم نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے اس امید کہ ساتھ کہ دیگرمعاملوں کی طرح ان سب معاملوں میں بھی انصاف ملے گا۔ انہوں نے آگے کہاکہ جب برسراقتدارلوگ آئینی فرض اداکرنے میں ناکام ہوجائیں اورمظلوموں کی آوازسن کر خاموش رہیں توعدالتیں ہی انصاف کے لئے واحد سہارارہ جاتی ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس تمام انصاف پسند جماعتوں اور ملک دوست افراد سے اپیل کرتا ہے کہ ردعمل اورجذباتی سیاست کی بجائے متحد ہوکر شدت پسند اور فسطائی طاقتوں کا سیاسی اور سماجی سطح پر مقابلہ کریں اور ملک میں بھائی چارہ، باہمی رواداری اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ہر ممکن جدوجہد کریں۔
اس موقع پر منظور کردہ تجاویز میں ملک کی موجودہ صورت حال پر غور و خوض کرتے ہوئے جمعیۃعلماء ہند نے ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت، شدت پسندی امن و قانون کی ابتری، اقلیتوں اورخصوصا مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیادپر امتیازی سلوک اورخاص طور پر فلسطین کے خلاف اسرائیل کی جارحانہ دہشت گردی کے رویہ پر سخت تشویش کا اظہارکیا۔
آج یہاں جاری ایک ریلیز کے مطابق اجلاس میں کئی اہم تجاویز منظورکی گئیں جس میں ایک اہم تجویز میں غزہ میں اسرائیلی جارحیت اورکھلی دہشت گردی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے تمام انصاف پسند لوگوں اوربین الاقومی اداروں سے اسے فوری طورپر روکنے کے لئے مؤثراقدامات کرنے کی اپیل کی گئی۔ایک دوسری اہم تجویز میں کہا گیا کہ آزادی کے بعد ہندوستان کے لئے جو دستوربنایا گیا اس کی بنیادسیکولرزم تھی لیکن آزادی کے فورا بعد دستورکو غیرسیکولربنانے کی فرقہ پرست عناصر کی طرف سے جب ریشہ دوانیاں شروع ہوئیں توآنجہانی اندراگاندھی کے ذریعہ پانچویں لوک سبھا میں بیالیسواں ترمیمی ایکٹ 1976 منظورہوا اورادستورکی تمہید میں لفظ سوشلسٹ اورسیکولر کا اضافہ کیا گیا۔ مجلس عاملہ میں وضاحت کی گئی کہ ملک کے مطبوعہ مروجہ آئین جس میں سوشلسٹ اورسیکولرزم لفظ سے انحراف کرکے آئین کو تقسیم کرنا ایک خطرناک سازش ہے ایساہواتوملک پر اس کے انتہائی مضمراثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اس لئے ہم کو نہ صرف اس کا تعاقب کرنا چاہئے بلکہ اس طرح کی سازش کی سنجیدگی سے مخالفت کی جانی چاہئے، اجلاس میں کہا گیا کہ ملک کے امن واتحاد اور یگجہتی کے لئے یہ کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔
تجویز میں کہا گیا کہ فرقہ پرست طاقت کے ذریعہ آئین و قانون کی پامالی کی یہ موجودہ روش ملک کے جمہوری ڈھانچے کو تار تارکررہی ہے اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز اور عصری تعلیم اور اصلاح معاشرہ کے طریقہ کار نیز دفتری و جماعتی امور پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔اجلاس میں مختلف معاملوں کو لیکر جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امدادکمیٹی جو مقدمات لڑرہی ہے ان کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔جمعیۃعلماء ہند کی بے لوث خدمات بالخصوص میوات کے علاقوں میں ریلیف وبازآبادکاری،کے ساتھ ساتھ یہ فیصلہ کیا گیاکہ جو لوگ فسادکے الزام میں جیلوں میں ہیں اگر ان کے گھرمیں کوئی کفیل نہیں ہے توان کی جیل سے رہائی تک اہل خانہ کو ماہانہ پانچ ہزارروپے کی امدادکے ساتھ یہ بھی طے پایاکہ جن کے مکانات منہدم کردیئے گئے ہیں اورجو بے زمین ہیں انہیں مکان کے لئے زمین خرید کر دی جائے گی، ملزمین کی قانونی وسماجی مدد،دہشت گردی کے الزام میں گرفتارلوگوں کی قانونی مدداورتعلیمی وظائف وغیرہ کاجائزہ لیاگیا ان اقدامات کی وجہ سے ماضی کے مقابلہ میں جمعیۃعلماء ہند کی طرف نئے لوگوں کا رجحان اوراعتمادمزیدبڑھاہے جس کی وجہ سے جمعیۃکی ممبرشپ حاصل کرنے کے لئے لوگ خاص کر نوجوان طبقہ بہت زیادہ دلچسپی دکھارہا ہے، ایک معتدبہ تعدادجمعیۃکے دفاتر مستقل رابطہ میں ہے، واضح رہے کہ پچھلے ٹرم میں ممبران کی تعدادتقریبا ایک کروڑپندرہ لاکھ تھی جبکہ آنے والے ٹرم میں ممبرسازی میں اضافہ کی قوی امید ہے۔
اجلاس میں صدرجمعیۃکے علاوہ مفتی سید معصوثاقب ناظم عمومی جمعیۃعلماء ہند، مولانا سیداسجد مدنی، مولاناسیداشہد رشیدی،پروفیسر نصراللہ تملناڈو،مولانا بدراحمد مجبیبی پٹنہ، مولاناعبداللہ ناصربنارس،قاری شمس الدین کلکتہ، مفتی اشفاق احمد اعظم گڑھ،حاجی سلامت اللہ دہلی، فضل الرحمن قاسمی،کے علاوہ بطورمدعوئین خصوصی مولانا محمد راشد راجستھان، مولانا محمد خالد ہریانہ، مولانا مکرم الحسینی بہار،مولانا حلیم اللہ قاسمی ممبئی، مولانا عبدالقیوم مالیگاؤں، مفتی حبیب اللہ جودھپور،وغیرہ شریک ہوئے۔ یو این آئی۔