تہاڑ جیل میں 35 سال تک خدمات انجام دینے والے سنیل گپتا نے کہا کہ اب نربھیا واقعے کے مجرموں کی پھانسی ہونا یقینی ہے۔ جیل میں اپنے دور میں انہوں نے پھانسی کے آٹھ واقعات دیکھے۔ ان میں 1982 میں رنگا بلہ اور 2013 میں افضل گرو کو پھانسی دینا شامل ہیں۔ لیکن یہ تہاڑ جیل کی تاریخ میں پہلی بار ہونے جا رہا ہے جب چار مجرموں کو ایک ساتھ پھانسی دی جائے گی۔
سنیل گپتا نے بتایا کہ 'تہاڑ جیل نمبر تین میں ایک پھانسی سیل ہے۔ صبح 4 بجے ملزموں کو پھانسی کے لیے لے جایا جائے گا۔ ان سے نہانے کو کہا جائے گا۔ ان کو چائے دی جائے گی۔ اس کے بعد انہیں کالے کپڑے پہننے کے لئے دیئے جائے گے۔ ساڑھے چار بجے تک مجسٹریٹ وہاں پہنچے گے اور مجرموں سے ان کی آخری خواہش پوچھے گے۔ اگر وہ کوئی قانونی عمل مکمل کرنا چاہتے ہیں تو پھر اس کو ریکارڈ کیا جائے گا۔
اس کے بعد جلاد مجرموں کے دونوں ہاتھ پیچھے باندھے گا اور انہیں پھانسی کے پھندے تک لے جایا جائے گا۔ انہیں لکڑی کے پلیٹ فارم پر چڑھانے کے بعد ان کے پاؤں باندھ دیئے جائیں گے اور سر کالے کپڑے سے ڈھانپ دیا جائے گا۔ چاروں کی گردن میں پھانسی کا پھندہ ڈال کر لیور کھینچ لیا جائے گا اور بلآخر چاروں کی موت ہوگی۔
تہاڑ جیل کے سابق قانونی مشیر سنیل گپتا نے کہا کہ 'مجرموں کو پھانسی کے بعد تقریبا 30 منٹ تک پھانسی کے پھندے پر لٹکایا جائے گا۔ اس کے بعد طبی جانچ ہوگی اور مجرموں کو قانونی طور پر مردہ قرار دیا جائے گا۔ پھر ان کی لاش نکال کر پوسٹ مارٹم کے لئے ہسپتال کی مردہ خانہ بھیج دی جائے گی۔ پوسٹ مارٹم کے بعد ان کی نعش لواحقین کے حوالے کردی جائے گی۔ اگر کوئی نعش لینے سے انکار کرتا ہے تو آخری رسومات تہاڑ جیل انتظامیہ ہی کریں گی۔ ان چاروں کا سامان جیل انتظامیہ ان کے اہل خانہ کے حوالے کر دے گی۔'
سنیل گپتا نے کہا کہ 'پھانسی کی سزا معاشرے میں ایک مثال قائم کرنا ہے۔ تاکہ آئندہ اس طرح کا کوئی جرم نہ ہو۔ یہاں تک کہ قتل کے معاملات میں بھی کئی بار سزائے موت دی جا چکی ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا پھانسے کے باوجود نہ صرف دارالحکومت میں بلکہ ملک بھر میں قتل کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔'