ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران پروفیسر احمد عرفان نے کہا کہ 'اردو زبان کی ترقی اور اس کے نشوونما میں جو دبستان لکھنؤ کے مراکز تھے، وہاں پر آج اردو ختم ہوتی جارہی ہے، یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'دو دہائی قبل اردو زبان پر بہت کم کام ہوا ہے جہاں تک رسم الخط کی بات ہے تو 21 ویں صدی میں یہ بہت بڑا مسئلہ اردو زبان کے سامنے آیا ہے۔'
بزم اردو کے بانی ریحان خان نے کہا کہ 'اردو زبان میں شعر و شاعری کی روایات بڑی ہی خوبصورت رہی ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اردو پڑھ نہیں رہی ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اردو زبان کو آسان بنانا ضروری ہے کیونکہ ایک طرف شعر و شاعری بہتر ہوتی اور اس کا معیار بہتر ہوتا ہے تو وہ لوگوں کو آسانی سے سمجھ آتی ہے۔'
اس تعلق سے اترپردیش اردو اکیڈمی کے سکریٹری ایس رضوان نے کہا کہ 'یہ سچ ہے کہ اردو زبان میں کمی آ رہی ہے کیونکہ اس کے جاننے اور سمجھنے والے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں اور یہ ہماری وجہ سے ہی ہو رہا ہے کیونکہ اردو زبان کو ہم نے اپنے تک ہی محدود کر رکھا ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'میں یہ نہیں مانتا ہوں کہ انگریزی زبان پڑھنے سے روزگار کے مواقع فراہم ہوتے لیکن ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کے ساتھ دوسری چیزیں بھی آپ کو آنا چاہیے۔'
انہوں نے کہا کہ 'اگر اردو زبان کو فروغ دینا ہے تو اس کے رسم الخط کو زندہ کرنا ہوگا کیونکہ رسم الخط کے بغیر کوئی زبان زندہ نہیں رہ سکتی۔ اس کے ساتھ ہی اردو زبان کو آسان بنانا چاہیے تاکہ نئی نسل اس کی طرف متوجہ ہو سکے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ 'سوشل میڈیا ایک ایسا ذریعہ ہے، جہاں پر غیر مسلم لوگ اردو زبان سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن وہ رسم الخط سے ناواقف ہوتے ہیں۔'