محمد کلیم اترپردیش حکومت کے ان دعووں کی پول کھول رہا ہے، جس میں یہ پولیس کے ذریعہ گولی نہ چلانے کی بات کہی گئی ہے۔
محمد کلیم صاف لفظوں میں بتارہا ہے کہ ہندوؤں نے کچھ نہیں کیا، پرساشن نے مارا۔
دراصل جماعت اسلامی کے ایک سہ رکنی وفد نے کل میرٹھ، بجنور اور اس سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا، ان علاقوں میں شہریت قانون کے خلاف مظاہرین پر پولیس نے جم کر بربریت کی، جس کی خبریں انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے سامنے نہیں آسکی۔
مذید پڑھیں: مسلم طالبہ کو کنووکیشن میں شرکت کرنے سے روکا گیا
جماعت اسلامی کے محتشم خان اور سراج احمد نے میرٹھ میں 5 متاثرہ خاندان سے ملاقات کی، جن کے لاڈلے احتجاج کے دوران گولیوں سے مارے گئے۔
جماعت اسلامی کے اس وفد نے ابھی تفصیلی رپورٹ تیار نہیں کی ہے، تاہم جماعت کے سکریٹری محتشم خان ای ٹی وی بھارت سے بات کرنے کے لیے راضی ہوئے۔
محتشم خان نے بتایا کہ میرٹھ اور اس سے متصل علاقوں میں پولیس اور انتظامیہ نے مظاہرین پر بے پناہ ظلم ڈھائے، کئی لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ سو سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ مظاہرین پر تشدد کے دوران پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے، جو سرکاری نہیں تھے، جن کے بارے میں اندیشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہ لوگ کسی سخت گیر جماعت جیسے بجرنگ دل یا آر ایس ایس کے بھی ہو سکتے ہیں۔
محتشم خان نے کسی جماعت کا نام لئے بغیر کہا کہ ان سب کی تحقیقات ہونی چاہئے۔
قابل ذکر ہے کہ اترپردیش میں شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں اب تک 18 عام لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ پولیس نے 700 سے زائد افراد کو گرفتار کیا ہے۔
اترپردیش میں جہاں وزیر اعلی نے مظاہرین سے انتقام لینے کی دھمکی دی تھی۔
وہیں مسلم اکثریتی علاقوں میں ہا ہا کار مچی ہوئی ہے، پولیس کے زریعہ گھروں میں گھس گھس کر تباہی مچانے، مار پیٹ کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔
انہوں نے متاثرہ علاقوں میں عوام سے بات چیت کے دوران جو مشاہدہ کیا اور جو جانا، اس سلسے میں ای ٹی وی بھارت کو بتایا۔ دیکھیں یہ خاص رپورٹ۔