دہلی: ملک کی موجودہ سیاست مسلمانوں ارد گرد گھومتی ہوئی نظر آتی ہے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست عروج پر ہے جس کے سبب بیشتر سیاسی جماعتیں انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نفرت کی سیاست کا سہارا لیتی ہیں جبکہ مسلمانوں کے مذہبی رہنما اسے مسلمانوں کے لیے سب سے خطرناک بتاتے ہیں۔ دراصل مولانا ارشد مدنی سے خصوصی گفتگو کے دوران جب سوال کیا گیا کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ نفرت کی سیاست ہے جس نے مسلمان کو ہر میدان میں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کی سیاست کو ختم کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اپ دیکھیے کتنے فیصدی مسلمان آج سرکاری نوکریوں میں موجود ہیں؟ اج کتنی فیصد ابادی مسلمانوں میں ایسی ہے جن کو سرکاری ملازمت ملی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمان قابل نہیں ہے کیونکہ اگر وہ قابل نہیں ہوتا تو اسے نجی کمپنیوں میں ملازمت کیوں ملتی دراصل مسلمانوں کو سرکاری نوکریوں میں رکھا ہی نہیں جاتا انہیں جان بوجھ کر ان ملازمتوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ جمعیت علما ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے ذات پات کی بنیاد پر مردم شماری کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کو ذات پات کی بنیاد پر نہیں بلکہ معاشی بنیاد پر ریزرویشن ملنا چاہیے۔
درج فہرست ذات کے تحت مسلمانوں کے ایک طبقے کو ریزرویشن دینے کے مطالبے کے سوال پر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو معاشی بنیادوں پر ریزرویشن دینے کی حمایت میں ہے ذات پات کی بنیاد پر نہیں۔ بھارتی جنتا پارٹی کے ذریعے پسماندہ مسلمانوں کو رجھانے کے کے معاملے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو پچھڑے ہوئے ہیں انہیں پسماندہ کہا جائے گا چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو ہوں اور ہر طبقے میں پسماندہ لوگ موجود ہیں ایسے میں طبقہ کی بنیاد کے بجائے معاشی حالات پر ہی ریزرویشن ملے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلمان انصاف کے لئے اٹھ کھڑے ہوں: مولانا سجاد نعمانی
ملک کی کچھ ریاستوں میں انتظامیہ کی طرف سے جرائم کے مقدمات میں ملوث ملزمان کے مکانات مسمار کیے جانے کے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کسی پر کوئی جرم ثابت ہو جائے تو اسے جیل بھیج دیں، لیکن اس کے بچوں اور ماں بہنوں کے لیے بنے گھروں کو بلڈوزر کے ذریعے زمین دوز کرنا بھارتیہ آئین کے خلاف ہے۔ وقف املاک کے تنازعے کے بارے میں سوال پر مولانا ارشد مدنی کا کہنا تھا کہ وقف ہمارا مذہبی معاملہ ہے اور وقف املاک پر جو تنازہ چل رہا ہے اسے نہیں ہونا چاہیے وقف تحفظ کے لیے کی گئی تھی نہ کہ اسے تباہ کرنے کے لیے۔