گزشتہ روز کرناٹک ہائی کورٹ نے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کی اجازت طلب کرنے والی عرضیوں کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ یہ اسلامی عقیدے میں ضروری مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے۔ Hijab Ban in Karnataka
کرناٹک ہائی کورٹ نے 129 صفحات پر مشتمل ایک حکم نامہ میں کہاکہ 'حجاب اسلام میں ایک لازمی مذہبی عمل نہیں ہے اور کلاس روم میں حجاب پہننے کی اجازت دینے کی درخواست کو خارج کر دیا'۔
مزید پڑھیں:
اس سلسلے میں دارالحکومت دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں مسلم طالبات پر مشتمل ایک گروپ نے پریس کانفرنس میں ہائی کورٹ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیا۔ کئی مسلم طالبات اور کارکنان نے عدالت کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اسے غیر آئینی بتایا۔
وہیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ ہما مسیح نے کہاکہ' حجاب کے مسئلہ پر یکساں ثقافت پر ایک صحت مند بحث کا آغاز ہونا چاہیے تھا، اس بات پر بحث شروع کرنی چاہیے تھی کہ یونیفارم جامع اور جمہوری ہے یا نہیں لیکن کوئی اس پر بات نہیں کر رہا ہے۔' Muslim Students Reactes on Hijab Verdict
جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طالبہ ثمرا انصاری نے الزام لگایا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ مسلم خواتین تعلیم حاصل نہ کرے اور وہ انہیں تعلیم اور اپنی شناخت کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور کر رہے ہیں'۔
انہوں نے کہاکہ' جب بھی مسلم خواتین اپنے حقوق کی بات کرنے کے لیے آگے آتی ہیں تو بعض نظریات کے لوگ اس پر فکر مند رہتے ہیں، یہ مسلم خواتین کو اپنی تعلیم اور شناخت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر مجبور کرکے تعلیم حاصل کرنے سے روکنے کا ایک منظم طریقہ ہے۔'
میں کہنا چاہتی ہو کہ ہم تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل کریں گے اور اپنی شناخت کو برقرار رکھیں گے، ہم کسی ایک کا انتخاب نہیں کریں گے۔'
حیدرآباد سے آئی سماجی کارکن خالدہ پروین نے کہاکہ' اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ اگر مسلم خواتین حجاب پہن کر بینک یا کسی عوامی مقام پر جاتی ہیں تو انہیں اخلاقی پولیسنگ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو کوں ذمہ دار ہوگا۔ مرکزی حکومت 'بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ' کی بات کرتی ہے، لیکن ریاستی حکومت اس کے خلاف جاتی ہے۔'
مزید پڑھیں: