نئی دہلی: جمعیۃ علما ہند کے قومی صدر مولانا محمود مدنی کی ہدایت پر ایک وفد جس میں جماعت اسلامی ہند کے مرکزی کارکنان بھی شامل ہیں، ان دنوں آسام کے دورے پر ہے۔ آج مسلم تنظیموں کے مشترکہ وفد نے درانگ ضلع کے دھول پو ر بستی میں تجاوزات ہٹانے کی مہم اور پولس ایکشن سے متاثر خاندانوں سے ملاقات کی، بالخصوص انسانیت سوز واقعے میں مرنے والے 37 سالہ معین الحق کے والدین، بچے اور بیوہ سے ملاقات کی۔ ملاقات کے وقت ان کی آنکھوں سے آنسو چھلک اٹھے۔
اس موقع پر جمعیۃ علماء آسام کے صدر مولانا بدرالدین اجمل صاحب کے مشورہ سے جمعیۃ علماء آسام اور اجمل فاؤنڈیشن کی طرف سے متوفی کے اہل خانہ کو دو لاکھ رقم پیش کی گئی۔ اسی طرح چودہ سالہ شیخ فرید کے والدین کو بھی جمعیۃ علماء کی طرف سے دو لاکھ روپے کی امداد کی گئی۔
اس کے علاوہ نو سو خاندانوں میں سے ہر ایک کو کھانے کی کٹ جس میں 25 کلو چاول، دو کلو دال، دو کلو شکر، دو کلو تیل، دو کلو نمک، دو کلو مسالہ اور بچوں کے لیے بسکٹ وغیرہ اشیا دی گئیں۔ دو سو ٹیوب ویل اور نو سو ٹینٹس بھی متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کیے گئے۔
جماعت اسلامی ہند کی طرف سے وہاں میڈیکل کیمپ لگایا گیا۔ جماعت اسلامی ہند کی طرف سے وفد میں جناب امین الحسن، نائب صدر جماعت اسلامی ہند، محمد شفیع مدنی، سیکرٹری جماعت اسلامی ہند موجود تھے۔
یہ وفد ٹریکٹر کے ذریعہ ہی متاثرہ علاقہ پہنچ سکا۔ ان کے ساتھ سامان دیکھ کر بے گھر خاندان مسرور ہوئے۔ وہ ادھر ادھر بکھری ہوئی جگہوں پر بسے ہوئے ہیں، بہتوں کے پاس سر چھپانے کے لیے چھپر تک نہیں ہے۔ جمعیۃ علماء کی طرف سے پیش کردہ ٹینٹ دیکھ کر ان کو راحت محسوس ہوئی۔
وفد نے اس جگہ کو بھی دیکھا جہاں ان کو بسانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ وفد نے مقتول معین الحق کے خاندان کا درد سنا۔ وفد نے بتایا کہ اس سے قبل وہ وزیر اعلی آسام، درانگ ایس پی وغیرہ سے مل چکے ہیں اور سرکار سے آپ کے لیے حق اور انصاف کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
ہم یہاں آپ کے پاس دکھ اور درد بانٹنے آئے ہیں اور جو ہم سے ممکن ہوا ہے وہ کررہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے۔ اس موقع پر مولانا حکیم الدین قاسمی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی آپ کے حالات سے بہت دکھی ہیں اور انھوں نے وزیر داخلہ کو بھی خط لکھا ہے۔
مزید پڑھیں:دارنگ واقعہ انسانیت پر دھبہ: کسان سبھا
متاثرین نے وفد کو بتایا کہ ہمیں بے گھر کردیا گیا۔ ہم نے احتجاج کیا تو ہماری جان لے لی گئی۔ ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں، پھر بھی ہمارے ساتھ ایسا کیوں رویہ اختیار کیا گیا، ہمیں بس انصاف اور اپنے بچوں کے لیے آشیانہ اور ایک محلہ چاہیے، جس کا حق ہمیں دستوری اور آئینی طور سے حاصل ہے اور جو سرکار کی ذمہ داری بھی ہے۔