دہلی:راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی مسلمانوں تک پہنچنا چاہتی ہے۔ لیکن ان کی ماضی کی تاریخ اور موجودہ واقعات کو دیکھ کر مسلم سماج ان پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے باوجود سنگھ نے ماضی میں مسلم سماج کے کچھ بڑے چہروں کے ساتھ میٹنگ کی تھی۔ میٹنگ میں سابق الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، دہلی کے سابق لیفٹیننٹ گورنر نجیب جنگ اور صحافی شاہد صدیقی نے شرکت کی تھی۔
ان ملاقاتوں کے بعد بھی سنگھ اور بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اب ان پانچوں لیڈروں نے سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کو خط لکھا ہے۔ اپنے خط میں ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف ہو رہے واقعات پر اعتراض جتایا ہے۔ اور موہن بھاگوت کو اس کے خلاف بولنے کی تلقین کی ہے۔ بھاگوت کے علاوہ انہوں نے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ ایسے واقعات کے خلاف سخت کارروائی کریں۔
گذشتہ 23 مارچ کو لکھے گئے ایک خط میں ایس وائی قریشی، نجیب جنگ اور شاہد صدیقی نے موہن بھاگوت سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر، بم دھماکوں، قتل عام اور مسلمانوں کے خلاف تشدد کے مطالبات کے خلاف مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔
آر ایس ایس چیف اور مسلم دانشوران کی ملاقات کا عمل گزشتہ سال اگست میں شروع ہوا تھا، اس کے بعد 14 جنوری کو نجیب جنگ کے گھر پر ان کی دوسری ملاقات ہوئی۔ بھاگوت سے ملاقاتوں میں نفرت انگیز تقریر، ماب لنچنگ اور بلڈوزر جیسے مسائل نمایاں طور پر سامنے آئے۔ ان میٹنگوں کے ذریعے سنگھ کی طرف سے کاشی-متھرا کے مندروں کے موجود مساجد کو مندر بنائے جانے پر مسلم برادری کا موقف کیا ہے۔
وہیں ریاست مہاراشٹر میں جن آکروش مورچہ کے بینر تلے منعقدہ ریلیوں میں مسلم سماج کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئیں، اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا گیا۔ اس سے پریشان ہو کر مسلم کمیونٹی کے ان نمائندوں نے بھاگوت سے ملنے کی کوشش بھی کی،لیکن ملاقات نہ ہو پانے کی وجہ سے انہوں نے بھاگوت کو خط لکھ کر اپنے مسائل سے آگاہ کیا اور کہا کہ ملک کی تعمیر تب تک ممکن نہیں جب تک سب کو ساتھ لے کر نہ چلا جائے، اس میں اقلیتی برادری کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا جو کہ آبادی کا 20 فیصد ہے۔
مزید پڑھیں:Muslims Can Not Overtake Hindus: مسلمان ہندوؤں کو پیچھے چھوڑ سکتے ہیں یہ محض پروپیگنڈہ ہے، ایس وائی قریشی
اس صورتحال میں بھاگوت اور سنگھ کے بڑے لیڈران کی باتوں کا بڑا اثر ہوتا ہے، جسے بہت سے لوگ سنتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہو جاتا ہے کہ موہن بھاگوت اور سنگھ کے بڑے لیڈران ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف پھیلائی جا رہی نفرت کے خلاف بولیں اور ملک کی تعمیر کے لیے ضروری امن اور محبت کی اپیل کریں۔
مسلم دانشوران نے آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے یہ بھی اپیل کی کہ وہ بات چیت کا دائرہ وسیع کریں اور مذاکرات کے اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند اور جمعیت علمائے ہند جیسی تنظیموں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔