قدیم مینار کو نقصان پہنچائے بغیر جدید تکنیک سے اپنی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہے۔
مسجد کا یہ مینار 100 برس سے زائد قدیم ہے۔
آثارقدیمہ کے ماہرین کےمطابق یہ مینار کافی مضبوط ہے، حتیٰ کہ 1950 میں ہونے والے تباہ کن زلزلے میں بھی اسے نقصان نہیں پہنچا۔
یہ مینار قدیم فن تعمیر کا اگر شاہکار نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔ اس میں لوہا اور سیمنٹ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
اسے تعمیر کرنے میں انڈے، بورا چاول، اُڑد کی دال، گڑ کا گھول وغیرہ کو ملاکر مسالہ تیار کیا گیا ہے، پھر اس مسالے سے مینار تیار کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑ کی طرح مضبوط ہے۔
گذشتہ دنوں حکام کی جانب سے اس مینار کو منہدم کرنے کی بات چل رہی تھی، کیوں کہ اس مینار کی وجہ سے قومی شاہراہ نمبر 37 کی توسیع میں رکاوٹ پیدا ہو رہی تھی۔
اس کےبعد امپیریل ڈیکور نامی تنظیم نے مینار کی منتقلی کی ذمہ داری قبول کی، اس تنطیم کے ذمہ دار وکیل احمد نے اس مہم کی قیادت کرتے ہوئے ریاست ہریانہ کے آر آر اینڈ سنز نامی کمپنی کے تعاون سے اس مینار کو کسی قسم کی نقصان پہنچائے بغیر اپنی جگہ سے منتقل کرنے کا کام شروع کیا ۔
اس مینار کو بنیاد سمیت اُٹھا کر سیمنٹ کے بنے ایک بیس میں رکھا گیا اور پھر اسے آگے لے جایا گیا۔
اس کام میں جدید تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔
کمپنی کے مالک اور انجینیئر گردیپ سنگھ نے اس تعلق سے کہا کہ اس طرح کا کام اس کی کمپنی کی جانب سے پہلے بھی کیا جا چکا ہے۔
کیرالہ اور آسام میں متعدد جگہوں پر اس قسم کا کام پہلے بھی ہو چکا ہے۔
گردیپ سنگھ کے مطابق اس مینار کو منتقل کرنے میں تقریباً 40 دن لگیں گے۔اس کام میں 100 سے زائد لوگ لگے ہوئے ہیں۔
مقامی لوگوں میں مینار کی منتقلی کے تئیں دلچسپی دیکھی جا رہی ہے، کیوں جب حکام کی جانب سے اسے توڑنے کی بات چلی تھی تو لوگوں میں مایوسی تھی۔
مقامی افراد اس مینار کو ایک مذہبی عبادت خانے کے حصے کے بجائے، اسے آثار قدیمہ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، کیوں کہ اس کی حیثیت ایک تاریخ عمارت کی ہو چکی ہے۔