ETV Bharat / state

Maulana Syed Jalaluddin Umri مولانا جلال الدین عمری ؒ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا: مقررین

مولانا جلال الدین عمری ؒ نوجوانی کی عمر ہی سے جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت سے وابستہ ہوگئے تھے۔ وہ ایک بلند پایا مصنف تھے۔ انہوں نے عام طور پر ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جو سلگتے ہوئے تھے۔ وہ انتہائی سلاست اور عام فہم انداز میں لکھتے۔ ان میں حد درجہ تواضع اور انکساری پائی جاتی تھی۔ cannot be forgotten to Maulana Jalaluddin Umri

Maulana Syed Jalaluddin Umri
Maulana Syed Jalaluddin Umri
author img

By

Published : Aug 31, 2022, 9:11 AM IST


نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا جلال الدین عمری کے انتقال سے ملی ومذہبی حلقوں میں غم کی لہر ہے جس کے لیے تعزیتی اجلاس منعقد کیے جارہے ہیں۔ اسی سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کی مسجد اشاعت الاسلام میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں ملی، مذہبی، سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی اور مولانا مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ Maulana Jalaluddin Umri cannot be forgotten

مولانا جلال الدین عمری ؒ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا
اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے امیر انجینئر سعادت اللہ حسینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا جلال الدین عمری ؒ کی خصوصیات میں ایک بڑی خصوصیت ان کی جامعیت ہے۔ وہ ایک بلند پایا مصنف تھے۔ ان کی تصنیفات کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے عام طور پر ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جو سلگتے ہوئے ہوتے تھے اور جن پر بہت کم لکھا گیا ہو۔

انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس میں قرآن و حدیث، متقدمین، سلف صالحین کی کتابوں اور جدید علوم سے بھرپور استفادہ کیا۔ جدید علوم سے استفادہ کے لیے انہوں نے باقاعدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں گریجویشن مکمل کیا۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے تھے، انتہائی سلاست اور عام فہم انداز میں لکھتے۔ انہوں نے یہ سارا کام دعوتی مصروفیات، تحریک اسلامی کی قیادت کی مصروفیات اور دیگر مصروفیات کے درمیان انجام دیا“۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”مولانا مرحوم نوجوانی کی عمر ہی سے جماعت کی مرکزی قیادت سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس عرصے میں جماعت کی مختلف ذمہ داریاں ادا کیں۔ صرف جماعت اسلامی ہند ہی ان کا میدان عمل نہیں تھی بلکہ ملک و ملت کے کئی میدانوں میں غیر معمولی خدمات دینا، مولانا مرحوم کا منفرد خاصہ تھا۔
مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر سید صفی اطہر نے کہا کہ مولانا کی پوری ز ندگی جہادی تھی، ان کے عادات و اطوار اور خاندان کے لیے طریقہ اصلاح مشفقانہ تھا۔ وہ ہم لوگوں کو کسی بات کی نصیحت کرتے تو نرم روی اختیار کرتے۔
مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ایک عالِم کی موت ایک عالَم کی موت ہے۔ ان کی وفات کا درد پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔ مولانا کی وفات ہوچکی ہے مگر ان کی کتابوں سے روشنی ملتی رہے گی۔
اس موقع پر جمعیت علماء ہند کے مفتی عبد الرازق نے کہا کہ مولانا میں قوم و ملت کی اور پورے عالم کی فکر تھی، ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر علی امام اصغر سلفی مہدی نے کہا کہ مولانا مرحوم کی کتابیں ان کا عظیم کارنامہ ہیں۔ نوجوان نسل ان کی کتابوں سے استفادہ کریں۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ مولانا غیر معمولی شخص تھے۔ ان میں حد درجہ تواضع اور انکساری پائی جاتی تھی۔ دیگر علوم کے علاوہ ان میں قانون دانی کی زبردست صلاحیت تھی۔ سکریٹری آل انڈیا شیعہ کونسل مولانا آغا جلال حیدر نقوی نے کہا کہ میں نے ملی مسائل پر ان سے بہت سے فیوض حاصل کیے ہیں۔ انڈین نیشنل لیگ کے صدر پروفیسر محمد سلمان نے کہا کہ مولانا اپنے چھوٹوں سے بڑی شفقت اور محبت سے ملتے تھے اور ناموافق حالات میں بالکل نہیں گھبراتے تھے۔

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ان کی وفات امت کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ ان سے ہر کس و ناکس بلا روک ٹوک مل سکتا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مدلل اور واضح بات پیش کرتے تھے۔ وائس آف امریکہ کے نمائندہ سہیل انجم نے مولانا کی زندگی کا مختصر خاکہ اس طرح پیش کیا گویا کہ وہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر قاسم سید نے کہا کہ مولانا نے امت مسلمہ کے مابین مسلکی اختلافات کو دور کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اجلاس کی ابتدا ان کلمات سے کی کہ مولانا کی وفات کے درد کو میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں۔ وہ میرے لیے ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تھے۔ میں نے چالیس برسوں تک ان کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا۔ اجلاس کے دوران دنیا بھر سے جماعت کو موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات میں سے کچھ اہم صوتی پیغامات اسکرین کے ذریعے پیش کیے گئے۔


نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا جلال الدین عمری کے انتقال سے ملی ومذہبی حلقوں میں غم کی لہر ہے جس کے لیے تعزیتی اجلاس منعقد کیے جارہے ہیں۔ اسی سلسلے میں جماعت اسلامی ہند کی مسجد اشاعت الاسلام میں ایک تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا، جس میں ملی، مذہبی، سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی اور مولانا مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔ Maulana Jalaluddin Umri cannot be forgotten

مولانا جلال الدین عمری ؒ کو فراموش نہیں کیا جاسکتا
اس موقع پر جماعت اسلامی ہند کے امیر انجینئر سعادت اللہ حسینی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مولانا جلال الدین عمری ؒ کی خصوصیات میں ایک بڑی خصوصیت ان کی جامعیت ہے۔ وہ ایک بلند پایا مصنف تھے۔ ان کی تصنیفات کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے عام طور پر ایسے موضوعات پر قلم اٹھایا جو سلگتے ہوئے ہوتے تھے اور جن پر بہت کم لکھا گیا ہو۔

انہوں نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اس میں قرآن و حدیث، متقدمین، سلف صالحین کی کتابوں اور جدید علوم سے بھرپور استفادہ کیا۔ جدید علوم سے استفادہ کے لیے انہوں نے باقاعدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگلش لٹریچر میں گریجویشن مکمل کیا۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے تھے، انتہائی سلاست اور عام فہم انداز میں لکھتے۔ انہوں نے یہ سارا کام دعوتی مصروفیات، تحریک اسلامی کی قیادت کی مصروفیات اور دیگر مصروفیات کے درمیان انجام دیا“۔
انہوں نے مزید کہا کہ ”مولانا مرحوم نوجوانی کی عمر ہی سے جماعت کی مرکزی قیادت سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس عرصے میں جماعت کی مختلف ذمہ داریاں ادا کیں۔ صرف جماعت اسلامی ہند ہی ان کا میدان عمل نہیں تھی بلکہ ملک و ملت کے کئی میدانوں میں غیر معمولی خدمات دینا، مولانا مرحوم کا منفرد خاصہ تھا۔
مولانا مرحوم کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر سید صفی اطہر نے کہا کہ مولانا کی پوری ز ندگی جہادی تھی، ان کے عادات و اطوار اور خاندان کے لیے طریقہ اصلاح مشفقانہ تھا۔ وہ ہم لوگوں کو کسی بات کی نصیحت کرتے تو نرم روی اختیار کرتے۔
مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ایک عالِم کی موت ایک عالَم کی موت ہے۔ ان کی وفات کا درد پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔ مولانا کی وفات ہوچکی ہے مگر ان کی کتابوں سے روشنی ملتی رہے گی۔
اس موقع پر جمعیت علماء ہند کے مفتی عبد الرازق نے کہا کہ مولانا میں قوم و ملت کی اور پورے عالم کی فکر تھی، ان کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر علی امام اصغر سلفی مہدی نے کہا کہ مولانا مرحوم کی کتابیں ان کا عظیم کارنامہ ہیں۔ نوجوان نسل ان کی کتابوں سے استفادہ کریں۔
آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ مولانا غیر معمولی شخص تھے۔ ان میں حد درجہ تواضع اور انکساری پائی جاتی تھی۔ دیگر علوم کے علاوہ ان میں قانون دانی کی زبردست صلاحیت تھی۔ سکریٹری آل انڈیا شیعہ کونسل مولانا آغا جلال حیدر نقوی نے کہا کہ میں نے ملی مسائل پر ان سے بہت سے فیوض حاصل کیے ہیں۔ انڈین نیشنل لیگ کے صدر پروفیسر محمد سلمان نے کہا کہ مولانا اپنے چھوٹوں سے بڑی شفقت اور محبت سے ملتے تھے اور ناموافق حالات میں بالکل نہیں گھبراتے تھے۔

ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے کہا کہ ان کی وفات امت کے لیے بڑا سانحہ ہے۔ ان سے ہر کس و ناکس بلا روک ٹوک مل سکتا تھا۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ میں مدلل اور واضح بات پیش کرتے تھے۔ وائس آف امریکہ کے نمائندہ سہیل انجم نے مولانا کی زندگی کا مختصر خاکہ اس طرح پیش کیا گویا کہ وہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ روزنامہ خبریں کے ایڈیٹر قاسم سید نے کہا کہ مولانا نے امت مسلمہ کے مابین مسلکی اختلافات کو دور کرنے میں اہم رول ادا کیا۔

شعبہ اسلامی معاشرہ، جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی نے اجلاس کی ابتدا ان کلمات سے کی کہ مولانا کی وفات کے درد کو میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں۔ وہ میرے لیے ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تھے۔ میں نے چالیس برسوں تک ان کے ساتھ رہ کر بہت کچھ سیکھا۔ اجلاس کے دوران دنیا بھر سے جماعت کو موصول ہونے والے تعزیتی پیغامات میں سے کچھ اہم صوتی پیغامات اسکرین کے ذریعے پیش کیے گئے۔

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.