ETV Bharat / state

کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار - کے آصف

بالی وڈ میں فلمساز کے آصف کو جو مقام حاصل ہوا، وہ شاید ہی کسی کے حصے میں آیا۔ انہیں فلم 'مغل اعظم' بنانے کے بعد ہدایتکاروں کا ہدایتکار کہا جانے لگا۔کے آصف کا پورا نام آصف کریم تھا۔

k asif
author img

By

Published : Jun 14, 2019, 1:18 PM IST

انہیں بالی وڈ میں ایک ایسی فلمی ہستی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے تین دہائیوں تک راج کیا۔

انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں لازوال فلموں کے ذریعے فلم بینوں کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔

کے آصف کا اپنا فلمی کیریئر بظاہر تین چار فلموں تک ہی محدود ہے لیکن ان کے اندر کام کرنے کا جو جذبہ تھا وہ اتنی شدت سے ابھر کر سامنے آتا تھا کہ فلم بینوں کے دلوں پر نقش ہو جاتا تھا۔

کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار
کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار

وہ اپنے کام کو بے نقص رکھنے میں اس قدر استغراق سے کام لیتے تھے کہ اکثر ان پر سست رفتاری کا الزام بھی لگتا رہا جس کی انہوں نے کبھی پرواہ نہیں کی اور جب بھی ان کی فلم پردہ سیمیں کی زینت بنی تو ایک عہد کو متاثر کر گئی۔

کے آصف نے 14 جون 1922 کو اترپردیش کے اٹاوہ میں ایک درمیانے طبقے کے مسلم خاندان میں آنکھیں کھولیں۔

چاليس کی دہائی میں وہ اپنے ماموں جان نذیر کے پاس ممبئی آ گئے جہاں ان کی درزی کی دکان تھی۔

ان کے ماموں فلموں کے لیے ملبوسات سپلائی کیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے چھوٹے بجٹ کی ایک دو فلمیں بھی بنائیں۔ اس طرح کے آصف ماموں کا ہاتھ بٹانے لگے۔ انہیں اپنے ماموں کے ساتھ فلم اسٹوڈیو جانے کا موقع ملنے لگا۔ آہستہ آہستہ ان کے اندر فلموں سے دلچسپی بڑھتی گئی۔

کے آصف، سليم اور اناركلی کی محبت کی کہانی سے کافی متاثر تھے۔ فلموں سے دلچسپی بڑھنے پر وہ اس کہانی کو پردہ سیمیں پر لانے کا خواب دیکھنے لگے۔ 1945 میں بطور ڈائریکٹر انہوں نے فلم 'پھول' سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ پرتھوی راج کپور، ثریا اور درگا کھوٹے جیسے بڑے ستاروں والی یہ فلم باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد کے آصف نے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ہمت پیدا کی اور ''مغل اعظم'' بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں کے آصف کے لیے اس فلم میں کرداروں کے انتخاب کا مرحلہ آسان نہ تھا۔ اس مرحلے سے گزرنے کے لیے آصف کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں انہوں نے شہزادہ سلیم کے کردار کے لیے چندر موہن کو جبکہ انارکلی کے کردار کے لیے اداکارہ ویتا کو اور اکبر کے رول کے لیے سپرو کا انتخاب کیا تھا۔

چندر موہن کے سامنے جب اس کردار کی تجویز پیش کی گئی تو چندر موہن نے ان سے صاف لفظوں میں یہ کہہ ديا کہ وہ اس فلم میں اسی شرط پر کام کریں گے جب وہ اس فلم کی ہدایت کی ذمہ داری خود نہ اٹھائیں۔ اس پر کے آصف نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ وہ اس دن کا انتظار کریں گے۔

اداکار چندر موہن کی 1946 میں اچانک موت ہو گئی۔ اس کے بعد کے آصف نے سپرو کے سامنے اکبر کا رول ادا کرنے کی تجویز پیش کی اور انارکلی کے کردار کے لیے نرگِس اور سلیم کے کردار کے لیے دلیپ کمار کو منتخب کیا لیکن سپرو نے جو نرگِس کے ساتھ فلموں میں بطور اداکار کام کر چکے تھے، اکبر کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں اداکارہ نرگِس نے بھی فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ تب مدھوبالا کے سامنے انارکلی کا کردار ادا کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور اکبر کے کردار کے لیے پرتھوی راج کپور کو منتخب کیا گیا۔ اس طرح 1951 میں ایک بار پھر مغل اعظم کی فلمسازی کا کام شروع ہوا۔

کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار
کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار

اسی دوران كے آصف نے دلیپ کمار، نرگِس اور بلراج ساہنی کے ساتھ فلم ہلچل شروع کی، جو کامیاب ثابت ہوئی۔ اس فلم سے منسلک ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 'اپٹا' سے وابستگی اور اپنے انقلابی اور کمیونسٹ خیالات کی وجہ بلراج ساہنی کو جیل بھی جانا پڑا۔ خصوصی انتظامات کے تحت وہ فلم کی شوٹنگ کیا کرتے تھے اور شوٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ واپس جیل چلے جاتے تھے۔

فلم 'مغل اعظم' بنانے میں تقریباً 10 برس لگ گئے۔ اس دوران سلیم - انارکلی کی محبت کی کہانی پر بنی ایک اور فلم اناركلی پردہ سیمیں پر آکر سپر ہٹ بھی ہو گئی۔ باوجود یہ کہ 1960 میں جب مغل اعظم منظر عام پر آئی تو اس نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔

فلم کی موسیقی بے انتہا مقبول ہوئی۔ اس سے وابستہ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ موسیقار نوشاد نے ایک لاکھ روپے ایڈوانس کی پیش کش کے باوجود اپنی مصروفیت کی وجہ سے اس فلم کی موسیقی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ كے آصف ہر قیمت پر فلم میں نوشاد سے کام لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے جب نوشاد کو کام کرنے کے لیے اور روپیوں کا لالچ دیا تو وہ پلٹ کر بولے کہ 'کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے اور آپ ہر چیز خرید لیں گے۔ آپ اپنے پیسے واپس لیں میں یہ فلم نہیں كروں گا'۔ اس پر آصف صاحب نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا ' دیکھتا ہوں کس طرح نہیں کریں گے۔ اتنے پیسے دوں گا کہ آج تک کسی نے نہیں دیے ہوں گے'۔

اس کے بعد کے آصف نے جب اور پیسہ بڑھانے کے لیے اشارہ کیا تو نوشاد نے غصے میں آکر نوٹوں کا بنڈل اس طرح پھینکا کہ پورے کمرے میں نوٹ ہی نوٹ بکھر گئی۔ نوشاد کی بیوی اور نوکر نے سارے نوٹ اٹھالیے تو نوشاد نے کہا ' اچھا آصف صاحب! آپ اپنے پیسے اپنے پاس رکھ لیجیے ہم فلم میں ساتھ کام کریں گے'۔

کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار
کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار

فلم مغل اعظم کی کامیابی کے بعد كے آصف نے راجندر کمار اور سائرہ بانو کے ساتھ 'سستا خون مہنگا پانی' بنانا شروع کی لیکن کچھ دنوں کی شوٹنگ ہونے کے بعد انہوں نے اس فلم کو بند کر دیا اور گرو دت اور نمی کے ساتھ لیلیٰ مجنوں کی کہانی پر مبنی فلم 'محبت اور خدا' کی عکس بندی شروع کی۔

گرو دت کی 1964 میں بے وقت موت کے بعد گرو دت کی جگہ اداکار سنجیو کمار کو کام کرنے کا موقع ضرور دیا لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوا اور 9 مارچ 1971 کو دل کا دورہ پڑنے سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کے آصف کی بیوی اختر کی کوشش سے یہ فلم 1986 میں کسی طرح ریلیز کر دی گئی۔

انہیں بالی وڈ میں ایک ایسی فلمی ہستی کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جنہوں نے تین دہائیوں تک راج کیا۔

انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں لازوال فلموں کے ذریعے فلم بینوں کے دلوں پر انمٹ نقوش چھوڑے۔

کے آصف کا اپنا فلمی کیریئر بظاہر تین چار فلموں تک ہی محدود ہے لیکن ان کے اندر کام کرنے کا جو جذبہ تھا وہ اتنی شدت سے ابھر کر سامنے آتا تھا کہ فلم بینوں کے دلوں پر نقش ہو جاتا تھا۔

کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار
کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار

وہ اپنے کام کو بے نقص رکھنے میں اس قدر استغراق سے کام لیتے تھے کہ اکثر ان پر سست رفتاری کا الزام بھی لگتا رہا جس کی انہوں نے کبھی پرواہ نہیں کی اور جب بھی ان کی فلم پردہ سیمیں کی زینت بنی تو ایک عہد کو متاثر کر گئی۔

کے آصف نے 14 جون 1922 کو اترپردیش کے اٹاوہ میں ایک درمیانے طبقے کے مسلم خاندان میں آنکھیں کھولیں۔

چاليس کی دہائی میں وہ اپنے ماموں جان نذیر کے پاس ممبئی آ گئے جہاں ان کی درزی کی دکان تھی۔

ان کے ماموں فلموں کے لیے ملبوسات سپلائی کیا کرتے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے چھوٹے بجٹ کی ایک دو فلمیں بھی بنائیں۔ اس طرح کے آصف ماموں کا ہاتھ بٹانے لگے۔ انہیں اپنے ماموں کے ساتھ فلم اسٹوڈیو جانے کا موقع ملنے لگا۔ آہستہ آہستہ ان کے اندر فلموں سے دلچسپی بڑھتی گئی۔

کے آصف، سليم اور اناركلی کی محبت کی کہانی سے کافی متاثر تھے۔ فلموں سے دلچسپی بڑھنے پر وہ اس کہانی کو پردہ سیمیں پر لانے کا خواب دیکھنے لگے۔ 1945 میں بطور ڈائریکٹر انہوں نے فلم 'پھول' سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ پرتھوی راج کپور، ثریا اور درگا کھوٹے جیسے بڑے ستاروں والی یہ فلم باکس آفس پر سپر ہٹ ثابت ہوئی۔

اس فلم کی کامیابی کے بعد کے آصف نے اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ہمت پیدا کی اور ''مغل اعظم'' بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں کے آصف کے لیے اس فلم میں کرداروں کے انتخاب کا مرحلہ آسان نہ تھا۔ اس مرحلے سے گزرنے کے لیے آصف کو کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ابتدا میں انہوں نے شہزادہ سلیم کے کردار کے لیے چندر موہن کو جبکہ انارکلی کے کردار کے لیے اداکارہ ویتا کو اور اکبر کے رول کے لیے سپرو کا انتخاب کیا تھا۔

چندر موہن کے سامنے جب اس کردار کی تجویز پیش کی گئی تو چندر موہن نے ان سے صاف لفظوں میں یہ کہہ ديا کہ وہ اس فلم میں اسی شرط پر کام کریں گے جب وہ اس فلم کی ہدایت کی ذمہ داری خود نہ اٹھائیں۔ اس پر کے آصف نے انہیں یہ جواب دیا تھا کہ وہ اس دن کا انتظار کریں گے۔

اداکار چندر موہن کی 1946 میں اچانک موت ہو گئی۔ اس کے بعد کے آصف نے سپرو کے سامنے اکبر کا رول ادا کرنے کی تجویز پیش کی اور انارکلی کے کردار کے لیے نرگِس اور سلیم کے کردار کے لیے دلیپ کمار کو منتخب کیا لیکن سپرو نے جو نرگِس کے ساتھ فلموں میں بطور اداکار کام کر چکے تھے، اکبر کا کردار ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد میں اداکارہ نرگِس نے بھی فلم میں کام کرنے سے انکار کر دیا۔ تب مدھوبالا کے سامنے انارکلی کا کردار ادا کرنے کی تجویز پیش کی گئی اور اکبر کے کردار کے لیے پرتھوی راج کپور کو منتخب کیا گیا۔ اس طرح 1951 میں ایک بار پھر مغل اعظم کی فلمسازی کا کام شروع ہوا۔

کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار
کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار

اسی دوران كے آصف نے دلیپ کمار، نرگِس اور بلراج ساہنی کے ساتھ فلم ہلچل شروع کی، جو کامیاب ثابت ہوئی۔ اس فلم سے منسلک ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 'اپٹا' سے وابستگی اور اپنے انقلابی اور کمیونسٹ خیالات کی وجہ بلراج ساہنی کو جیل بھی جانا پڑا۔ خصوصی انتظامات کے تحت وہ فلم کی شوٹنگ کیا کرتے تھے اور شوٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ واپس جیل چلے جاتے تھے۔

فلم 'مغل اعظم' بنانے میں تقریباً 10 برس لگ گئے۔ اس دوران سلیم - انارکلی کی محبت کی کہانی پر بنی ایک اور فلم اناركلی پردہ سیمیں پر آکر سپر ہٹ بھی ہو گئی۔ باوجود یہ کہ 1960 میں جب مغل اعظم منظر عام پر آئی تو اس نے باکس آفس کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔

فلم کی موسیقی بے انتہا مقبول ہوئی۔ اس سے وابستہ ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ موسیقار نوشاد نے ایک لاکھ روپے ایڈوانس کی پیش کش کے باوجود اپنی مصروفیت کی وجہ سے اس فلم کی موسیقی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ كے آصف ہر قیمت پر فلم میں نوشاد سے کام لینا چاہتے تھے۔ انہوں نے جب نوشاد کو کام کرنے کے لیے اور روپیوں کا لالچ دیا تو وہ پلٹ کر بولے کہ 'کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پیسے سے ہر چیز خریدی جا سکتی ہے اور آپ ہر چیز خرید لیں گے۔ آپ اپنے پیسے واپس لیں میں یہ فلم نہیں كروں گا'۔ اس پر آصف صاحب نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا ' دیکھتا ہوں کس طرح نہیں کریں گے۔ اتنے پیسے دوں گا کہ آج تک کسی نے نہیں دیے ہوں گے'۔

اس کے بعد کے آصف نے جب اور پیسہ بڑھانے کے لیے اشارہ کیا تو نوشاد نے غصے میں آکر نوٹوں کا بنڈل اس طرح پھینکا کہ پورے کمرے میں نوٹ ہی نوٹ بکھر گئی۔ نوشاد کی بیوی اور نوکر نے سارے نوٹ اٹھالیے تو نوشاد نے کہا ' اچھا آصف صاحب! آپ اپنے پیسے اپنے پاس رکھ لیجیے ہم فلم میں ساتھ کام کریں گے'۔

کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار
کے آصف: ہدایت کاروں کے ہدایت کار

فلم مغل اعظم کی کامیابی کے بعد كے آصف نے راجندر کمار اور سائرہ بانو کے ساتھ 'سستا خون مہنگا پانی' بنانا شروع کی لیکن کچھ دنوں کی شوٹنگ ہونے کے بعد انہوں نے اس فلم کو بند کر دیا اور گرو دت اور نمی کے ساتھ لیلیٰ مجنوں کی کہانی پر مبنی فلم 'محبت اور خدا' کی عکس بندی شروع کی۔

گرو دت کی 1964 میں بے وقت موت کے بعد گرو دت کی جگہ اداکار سنجیو کمار کو کام کرنے کا موقع ضرور دیا لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوا اور 9 مارچ 1971 کو دل کا دورہ پڑنے سے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ کے آصف کی بیوی اختر کی کوشش سے یہ فلم 1986 میں کسی طرح ریلیز کر دی گئی۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.