گزشتہ دو ماہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی (جے ایم آئی) میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف مسلسل احتجاج کیا جارہا ہے۔
اس دوران دہلی پولیس کی جانب سے احتجاج کرنے والوں کو 15 دسمبر، 29 جنوری اور پھر 10 فروری کو، اس طرح سے تین دفعہ نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کہ آخری واقعہ 10 فروری کا ہے جب جامعہ کے طلبا نے یہ طے کیا کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے لے کر پارلیمنٹ ہاؤس تک احتجاجاً پیدل مارچ کریں گے تو دہلی پولیس نے ان کو ہولی فیملی ہسپتال سے آگے جانے کی اجازت نہیں دی۔ جب انہوں نے احتجاج کیا تو پولیس نے ان کے خلاف سخت کارروائی کی۔
اطلاع کے مطابق دہلی پولیس نے جامعہ کے طلبا پر لاٹھی چارج نہیں کی، لیکن اس کے باوجود 30 سے زائد طلبا زخمی ہوگئے اور انہیں الشفاء ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔
آج جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں گزشتہ دس فروری کو ہوئی پولیس کی بربریت کی مکمل داستان بیان کی گئی۔
پریس کانفرنس میں جو طلباء زخمی ہوگئے تھے انہوں نے بذات خود اپنی زبانی کہا کہ پولیس نے لاٹھی چارج تو نہیں کیا لیکن جسم کے ان حصوں پر وار ضرور کیا جو سب سے زیادہ نازک ہوتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پولیس ہمارے پرائیویٹ پارٹز کو نشانہ بنا کر وار کررہی تھی۔
طلبا کا الزام ہے کہ پولیس نے کُہنی، گھٹنے، جوتے لاٹھی کے نیچے کے حصے کا استعمال کیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ میران حیدر نے پریس کانفرنس میں اپنی روداد سناتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اس بار الگ حکمت عملی اپناتے ہوئے ہمیں ٹارگیٹ کیا ہمیں اس طرح سے مارا گیا کہ جس سے ہمیں اندرونی چوٹ آئے۔