ممنوعہ تنظیم داعش کے مبینہ رکن ہونے اور نوجوانوں کو داعش سے منسلک ہونے کی مبینہ ترغیب دینے اور انہیں مبینہ طور پر کشمیر میں جہاد کے لیے بھیجنے کے الزامات کے تحت گرفتار ڈاکٹر رئیس رشید کے مقدمہ کی پیروی جمیعت العلماء ہند کرے گی۔
اس ضمن میں جمیعت نے ضمانت کے لیے عرضی بھی داخل کردی ہے۔
جمیعت العلماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ جمیعت کی کوششوں سے اب تک سینکڑوں نوجوان دہشت گردی سے وابستہ ہونے کے معاملات میں رہا ہوچکے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ جانچ ایجنسیاں بغیر ثبوت کے مذہبی تعصب کی بنیاد پر گرفتار کرلیتی ہیں اور طویل مدت کے بعد عدالتیں انہیں باعزت بری کردیتی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جانچ ایجنسیز کے اس متعصبانہ رویے سے مسلم نوجوانوں کے جو ماہ و سال برباد ہوجاتے ہیں انہیں کون لوٹائے گا۔
انہوں نے کہا کہ جمیعت العلماء ہند نے فاسٹ ٹریک عدالت کا مطالبہ کیا تھا تاکہ جلد ٹرائل ہو اگر مجرم ہے تو سزا ملے اور اگر بے قصور ہے تو انہیں رہا کردیا جائے۔
مولانا مدنی نے اس عہد کا اعادہ کیا کہ جمیعت دہشت گردانہ معاملات میں مسلمانوں کی باعزت رہائی تک اپنی جدو جہد جاری رکھے گی۔
ارشد مدنی نے مزید کہا کہ مسلم نوجوانوں خاص کر تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے دہشت گردی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اعداد و شمار اس بات کے گواہ ہیں کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والوں میں بڑی تعداد تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کی ہے۔
اس ضمن میں جمیعت العلماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ جمیعت کے صدر کے حکم پر ملزم کو قانونی امداد فراہم کی جائے گی اور اس تعلق سے دہلی ہائی کورٹ میں ایڈوکیٹ مجاہد احمد نے ملزم کی ضمانت پر رہائی کی درخواست داخل کی ہے کیونکہ تین ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک این آئی اے نے عدالت میں چارج شیٹ داخل نہیں کی ہے۔
واضح رہے کہ ملزم کی اہلیہ نے صدر جمیعت العلما ہند حضرت مولانا سید ارشد مدنی کے نام خط ارسال کرکے قانونی امداد طلب کی تھی جسے منظور کر لیا گیا ہے۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ متعین کردہ مدت میں اگر تفتیشی ایجنسی چارج شیٹ داخل نہیں کرتی ہے تو ملزم کو ضمانت پر رہائی ملنے کی شق قانون میں موجود ہے لیکن اس معاملے میں تین ماہ گزر جانے کے باوجود این آئی اے نے چارج شیٹ داخل نہیں کی اور نچلی عدالت نے انہیں چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے مزید تین ماہ کی مہلت دے دی ہے جوکہ غیر قانونی ہے کیونکہ چارج شیٹ داخل کرنے کی مدت میں توسیع کرنے کے وقت عدالت نے دفاعی وکیل کو بحث کرنے کا موقع ہی نہیں دیا بلکہ این آئی اے کی عرضداشت پر آرڈر پاس کردیا۔
گلزار اعظمی نے مزید کہا کہ یہ صحیح ہے کہ یو اے پی اے قانون کے تحت تفتیشی ایجنسی 6 ماہ تک تفتیش کر سکتی ہے لیکن اس کے لیے درکار پروسیجر کو فالو کرنا پڑتا ہے لیکن اس مقدمہ میں ایسا کوئی پروسیجر فالو نہیں کیا گیا بلکہ ملزمین کو اندھیرے میں رکھ کر عدالت سے مزید تین ماہ کی مہلت بڑھا لی گئی جس کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی ہے جس پر جلد سماعت متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہلی ہائی کورٹ میں دو پٹیشن داخل کرکے ملزم کی ضمانت پر رہائی اور نچلی عدالت کے این آئی اے کو چارج شیٹ داخل کرنے کے لیے مزید تین ماہ کی مہلت دینے والے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جمیعت العلماء آفتاب عالم کا کیس لڑے گی
گلزار اعظمی نے کہا کہ تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود این آئی اے کو ملزم کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا ہے لہذا انہوں نے عدالت سے تفتیش کرنے کے لیے مزید مہلت طلب کی ہے جو اس با ت کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ ملزم کو جھوٹے مقدمہ میں پھنسایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ ملزم کو 15 مارچ 2021 کو بنگلور میں اس کے دواخانے سے گرفتار کیا گیا تھا اور پھر اسے دہلی کی خصوصی این آئی اے عدالت میں پیش کیا گیا۔
اس معاملے میں کُل 7 ملزمین ہیں جن پر مبینہ طور پر داعش کے رکن ہونے اور ملک میں میں دہشت گردوانہ کارروائیاں انجام دینے کا الزام ہے۔
ملزمین پر الزام ہے کہ وہ ٹیلی گرام، ہوپ اور انسٹاگرام جیسے شوشل میڈیا پلیٹ فارم سے داعش کی تشہیر کرتے تھے۔