ETV Bharat / state

جمعیت علماء ہند کی مدد سے 20 افراد ڈیٹینشن سینٹر سے رہا

جمعیت علماء ہند کی قانونی مدد سے آسام کے حراستی مرکز سے 20 افراد ضمانت پر رہا ہوگئے، یہ تمام لوگ دوبرس سے زائد عرصہ سے حراستی مرکزمیں مقید تھے۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی
author img

By

Published : Apr 29, 2020, 8:53 PM IST

گوہاٹی ہائی کورٹ کے حکم پر مقید افراد کو رہا کیا گیا ہے اور اس میں سپریم کورٹ کے دواہم فیصلوں کا کلیدی رول رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے داخل ایک عرضی پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 10جنوری 2019کو اپنا فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حراستی کیمپوں میں جو لوگ تین سال کی مدت گزارچکے ہیں، انہیں دو بھارتی شہریوں کی ضمانت پر دیگر شرائط کے ساتھ رہا کیا جانا چاہئے۔

اسی طرح گزشتہ 13 اپریل 2020کو ایک اورمقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فیصلہ صادرکیا تھا کہ جو لوگ حراستی کیمپوں میں دوسال کی مدت گزارچکے ہیں، انہیں بھی دوعدد بھارتی شہریوں کی ضمانت پر شرائط کے ساتھ رہا کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے انہیں فیصلوں کی روشنی میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایسے تمام افرادکی رہائی کافرمان جاری کیا ہے، واضح ہوکہ رہاہونے والے وہ لوگ ہیں جنہیں فارن ٹریبونل بھی غیر ملکی قراردے چکا ہے، اگرچہ سپریم کورٹ کی رولنگ بہت صاف ہے مگر حراستی کیمپوں میں جانوروں کی طرح ٹھونس کررکھے گئے بے بس اور نادار لوگوں کے لئے ضابطوں کی تکمیل آسان کام نہیں ہے۔

اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر آسام صوبائی جمعیۃعلماء کے صدرمولانا مشتاق احمد عنفر کی رہنمائی میں جمعیۃعلماء ہند کی ایک ٹیم نے اپنی مہم شروع کی اور حراستی کیمپوں میں دویا تین برس کی مدت پوری کرچکے لوگوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جمعیۃعلماء ہند آسام شہریت معاملہ کو لیکر روز اول سے کامیاب قانونی لڑائی لڑرہی ہے اور یہ قانونی لڑائی اس نے بلا لحاظ مذہب وملت لڑی ہے، اس کی طویل قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں این آرسی کے عمل کے دوران آسام کے شہریوں کو بہت سی اہم ریاعتیں حاصل ہوئی جن کی وجہ سے انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے میں کم دقت کا سامنا کرنا پڑا۔

جمعیۃعلماء ہند آسام میں انسانیت کی بنیاد پر لوگوں کو اخلاقی اور قانونی امدادفراہم کررہی ہے۔ تازہ معاملہ اس کا بین ثبوت ہے ان میں رہا ہونے والوں میں نصف سے زائد تعداد غیرمسلموں کی ہے یہ وہ مجبوراور نادارلوگ ہیں جو اپنی قانونی لڑائی نہیں لڑسکتے۔

جمعیۃعلماء ہند نے ایسے ہی لوگوں کی مددکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے اپنے ایک بیان میں حراستی کیمپوں سے مجبوراوربے بس افرادکی رہائی کو ایک خوش آئند پیش رفت قراردیتے ہوئے کہا کہ ان فیصلے سے قانون میں ایک بارپھرلوگوں کا اعتمادمضبوط ہوا ہے اور اس فیصلے سے اب ان دوسرے لوگوں کی رہائی کا راستہ بھی آسان ہوجائے گا۔

جو ٹربیونل کے ذریعہ غیر ملکی قراردیئے جانے کے بعد سے حراستی کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور اپنی قید کی دویا تین برس کی مدت بھی گزارلی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آسام شہریت معاملہ کو لیکر کچھ لوگوں نے اسے فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی لیکن جمعیۃعلماء ہند نے روز اول سے اسے ایک انسانی معاملہ کے طورپر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی مسلسل قانونی جدوجہد سے جورعایتیں حاصل ہوئی اس کا فائدہ ریاست کے ہر شہری کو ہوا ہے اور اب تو دوسرے لوگ بھی اس سچائی اعتراف کرنے پر مجبورہیں کہ اگر جمعیۃعلماء نے وقت وقت پر قانون کی لڑائی نہ لڑئی ہوتی تو ریاست کی شہریوں کی ایک بڑی تعداد غیر ملکی قرار دے دی جاتی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا ابتداسے یہ موقف رہا ہے کہ جو لوگ واقعی غیر ملکی ثابت ہو، انہیں ریاست سے نکالاجانا چاہئے اور ایسا مذہب کی بنیادپر نہیں ہونا چاہئے دوسرے جو حقیقی طورپر بھارتی ہیں انہیں شہریت کا حق بہر صورت ملنا چاہئے۔

ایسے لوگوں کو اگر دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے تو انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کا اظہارہونا چاہئے اور انہیں شہریت ثابت کرنے کے مزید مواقع ملنے چاہئے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃعلماء ہند سب کو انسان کی حیثیت سے دیکھتی ہے اس نے انسانوں میں مذہب کی بنیادپر کبھی کوئی تفریق نہیں کی، تازہ معاملہ بھی اس کا زندہ ثبوت ہے۔

انہوں نے آخر میں کہاکہ جمعیۃعلماء ہند آئندہ بھی ایسے لوگوں کی مددکے لئے تیاررہے گی، جو ٹربیونل کے ذریعہ غیر ملکی قراردیئے جانے کے بعد پچھلے دویا تین برس سے حراستی کیمپوں میں جانورسے بدترزندگی گزاررہے ہیں، مگر مالی پریشانی کی وجہ سے وہ اپنی رہائی کے لئے وکلاء سے رجوع نہیں کرسکتے ایسے لوگوں کی جمعیۃعلماء ہند ہر طرح سے مددکرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وکلاء کا پینل حراستی کیمپوں کا دورہ کرنہیں پارہا ہے اورنہ ہی لوگ اس پینل سے اپنے طورپر رابطہ کرپارہے ہیں۔

لیکن جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوگا تمام حراستی کیمپوں کادورہ کرکے وکلاء کا پینل اس سلسلہ میں ایک رپورٹ تیارکرکے ایسے تمام لوگوں کی ضمانت پر رہائی کی کوشش کرے گا۔

قابل ذکر ہے کہ ان سب کا تعلق آسام کے ضلع با نکسہ اورہوجائی سے ہے اور ان رہا ہونے والوں میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، جن کے نام یہ ہے، چاند موہن منڈل، ستیاسادھوسترادھر، نراین داس گوری ساگر، سوشل داس گوری ساگر، آماری داس گوری ساگر، مقصدعلی الینگ ماری، قدم علی گباردھنا، اناتی بیگم الینگ ماری، نورعالم ڈبکا، عبدلملک ڈبکا، عبدالمالک ڈبکا، چندارانی پال ڈبکا، یایسکاربیگم ڈبکا، کفیل الدین ڈبکا، عبدالحنان مورازار، عبدالخالق ادالی، واحدہ بیگم لنکا، کرتیش چندر، فلبان جمنامکھ اور بسنتی جمنامکھ۔

گوہاٹی ہائی کورٹ کے حکم پر مقید افراد کو رہا کیا گیا ہے اور اس میں سپریم کورٹ کے دواہم فیصلوں کا کلیدی رول رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے داخل ایک عرضی پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 10جنوری 2019کو اپنا فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حراستی کیمپوں میں جو لوگ تین سال کی مدت گزارچکے ہیں، انہیں دو بھارتی شہریوں کی ضمانت پر دیگر شرائط کے ساتھ رہا کیا جانا چاہئے۔

اسی طرح گزشتہ 13 اپریل 2020کو ایک اورمقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فیصلہ صادرکیا تھا کہ جو لوگ حراستی کیمپوں میں دوسال کی مدت گزارچکے ہیں، انہیں بھی دوعدد بھارتی شہریوں کی ضمانت پر شرائط کے ساتھ رہا کیا جائے۔

سپریم کورٹ کے انہیں فیصلوں کی روشنی میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایسے تمام افرادکی رہائی کافرمان جاری کیا ہے، واضح ہوکہ رہاہونے والے وہ لوگ ہیں جنہیں فارن ٹریبونل بھی غیر ملکی قراردے چکا ہے، اگرچہ سپریم کورٹ کی رولنگ بہت صاف ہے مگر حراستی کیمپوں میں جانوروں کی طرح ٹھونس کررکھے گئے بے بس اور نادار لوگوں کے لئے ضابطوں کی تکمیل آسان کام نہیں ہے۔

اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر آسام صوبائی جمعیۃعلماء کے صدرمولانا مشتاق احمد عنفر کی رہنمائی میں جمعیۃعلماء ہند کی ایک ٹیم نے اپنی مہم شروع کی اور حراستی کیمپوں میں دویا تین برس کی مدت پوری کرچکے لوگوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جمعیۃعلماء ہند آسام شہریت معاملہ کو لیکر روز اول سے کامیاب قانونی لڑائی لڑرہی ہے اور یہ قانونی لڑائی اس نے بلا لحاظ مذہب وملت لڑی ہے، اس کی طویل قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں این آرسی کے عمل کے دوران آسام کے شہریوں کو بہت سی اہم ریاعتیں حاصل ہوئی جن کی وجہ سے انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے میں کم دقت کا سامنا کرنا پڑا۔

جمعیۃعلماء ہند آسام میں انسانیت کی بنیاد پر لوگوں کو اخلاقی اور قانونی امدادفراہم کررہی ہے۔ تازہ معاملہ اس کا بین ثبوت ہے ان میں رہا ہونے والوں میں نصف سے زائد تعداد غیرمسلموں کی ہے یہ وہ مجبوراور نادارلوگ ہیں جو اپنی قانونی لڑائی نہیں لڑسکتے۔

جمعیۃعلماء ہند نے ایسے ہی لوگوں کی مددکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے اپنے ایک بیان میں حراستی کیمپوں سے مجبوراوربے بس افرادکی رہائی کو ایک خوش آئند پیش رفت قراردیتے ہوئے کہا کہ ان فیصلے سے قانون میں ایک بارپھرلوگوں کا اعتمادمضبوط ہوا ہے اور اس فیصلے سے اب ان دوسرے لوگوں کی رہائی کا راستہ بھی آسان ہوجائے گا۔

جو ٹربیونل کے ذریعہ غیر ملکی قراردیئے جانے کے بعد سے حراستی کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور اپنی قید کی دویا تین برس کی مدت بھی گزارلی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آسام شہریت معاملہ کو لیکر کچھ لوگوں نے اسے فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی لیکن جمعیۃعلماء ہند نے روز اول سے اسے ایک انسانی معاملہ کے طورپر لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی مسلسل قانونی جدوجہد سے جورعایتیں حاصل ہوئی اس کا فائدہ ریاست کے ہر شہری کو ہوا ہے اور اب تو دوسرے لوگ بھی اس سچائی اعتراف کرنے پر مجبورہیں کہ اگر جمعیۃعلماء نے وقت وقت پر قانون کی لڑائی نہ لڑئی ہوتی تو ریاست کی شہریوں کی ایک بڑی تعداد غیر ملکی قرار دے دی جاتی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا ابتداسے یہ موقف رہا ہے کہ جو لوگ واقعی غیر ملکی ثابت ہو، انہیں ریاست سے نکالاجانا چاہئے اور ایسا مذہب کی بنیادپر نہیں ہونا چاہئے دوسرے جو حقیقی طورپر بھارتی ہیں انہیں شہریت کا حق بہر صورت ملنا چاہئے۔

ایسے لوگوں کو اگر دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے تو انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کا اظہارہونا چاہئے اور انہیں شہریت ثابت کرنے کے مزید مواقع ملنے چاہئے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃعلماء ہند سب کو انسان کی حیثیت سے دیکھتی ہے اس نے انسانوں میں مذہب کی بنیادپر کبھی کوئی تفریق نہیں کی، تازہ معاملہ بھی اس کا زندہ ثبوت ہے۔

انہوں نے آخر میں کہاکہ جمعیۃعلماء ہند آئندہ بھی ایسے لوگوں کی مددکے لئے تیاررہے گی، جو ٹربیونل کے ذریعہ غیر ملکی قراردیئے جانے کے بعد پچھلے دویا تین برس سے حراستی کیمپوں میں جانورسے بدترزندگی گزاررہے ہیں، مگر مالی پریشانی کی وجہ سے وہ اپنی رہائی کے لئے وکلاء سے رجوع نہیں کرسکتے ایسے لوگوں کی جمعیۃعلماء ہند ہر طرح سے مددکرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وکلاء کا پینل حراستی کیمپوں کا دورہ کرنہیں پارہا ہے اورنہ ہی لوگ اس پینل سے اپنے طورپر رابطہ کرپارہے ہیں۔

لیکن جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوگا تمام حراستی کیمپوں کادورہ کرکے وکلاء کا پینل اس سلسلہ میں ایک رپورٹ تیارکرکے ایسے تمام لوگوں کی ضمانت پر رہائی کی کوشش کرے گا۔

قابل ذکر ہے کہ ان سب کا تعلق آسام کے ضلع با نکسہ اورہوجائی سے ہے اور ان رہا ہونے والوں میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، جن کے نام یہ ہے، چاند موہن منڈل، ستیاسادھوسترادھر، نراین داس گوری ساگر، سوشل داس گوری ساگر، آماری داس گوری ساگر، مقصدعلی الینگ ماری، قدم علی گباردھنا، اناتی بیگم الینگ ماری، نورعالم ڈبکا، عبدلملک ڈبکا، عبدالمالک ڈبکا، چندارانی پال ڈبکا، یایسکاربیگم ڈبکا، کفیل الدین ڈبکا، عبدالحنان مورازار، عبدالخالق ادالی، واحدہ بیگم لنکا، کرتیش چندر، فلبان جمنامکھ اور بسنتی جمنامکھ۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.