انہوں نے کہا کہ ہم لیبر لاء میں کچھ ریاستی حکومتوں کے ذریعہ من مانے بدلاؤ کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس طرح کا بدلاؤ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات سمیت کچھ دیگر ریاستوں نے کیا ہے اور یہ بدلاؤ مزدور قوانین کے کئی حصوں میں کیا گیا ہے جیسے اوقات کار، تنازعات کو حل کرنا، تحفظ، صحت اور ان کے کام کرنے کی شرائط کے علاوہ جو ٹریڈ یونینوں سے متعلق ہیں یا کنٹریکٹ ورکرس اور مہاجر لیبر سے متعلق بدلاؤ کیا گیا ہے۔
اس سے انسانیت پر مبنی سہولیات کے حصول میں منفی اثرات پڑیں گے، جیسے شفاف پانی کی فراہمی، فرسٹ ایڈ، حفاظتی سامان اور اسی طرح مزدور کے بچوں کو ملنے والی سہولیات جیسے ہواداری، روشنی، کینٹینز،آرامگاہیں اور دن کے اوقات میں دیکھ بھال کی سہولتیں۔
حکومت کا وہ کردار جس کی وجہ سے ان مہاجر مزدوروں کو لاک ڈاؤن کے درمیان بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا، اس سے ان کے متعلق حکومت کی بے حسی کا اظہار ہوتا ہے جبکہ یہی مزدور درحقیقت ہماری معیشت کے پہیئے کو حرکت دیتے ہیں۔
سرمایہ کاری کی دعوت دینے کی غرض سے لیبر قوانین کو معطل کرنا یقینی طور پرافرادی قوت کا استحصال، بے روزگاری، کام کی جگہ پر ہراسانی اور معاشرتی بدامنی کا باعث بن سکتا ہے۔
یقیناً اس وقت ملک کو کورونا کے بعد کی حالات کی وجہ سے سرمایہ کاری اورپیداوار میں اضافے کی ضرورت ہے، مگر یہ انسانی حقوق اور معاشی انصاف کی قیمت پر نہیں۔
بھارت، چین کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی مزدوروں کے تعلق سے پالیسی بنانے میں چین کی تقلید کی جاسکتی ہے۔ ہم کوئی بھی پالیسی بناتے وقت انسانیت کو ترک کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
ہمیں بہر صورت اپنے محنت کش طبقے کی فلاح و بہبود کو مرکزیت میں رکھنا ہوگا۔ ہم مرکزی سرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس موضوع میں مداخلت کرکے مزدوروں کے حقوق کو یقینی بنائے اور اس طرح سے ان کے حقوق کو نہ چھینا جائے۔