ETV Bharat / state

جلیاں والا باغ سانحہ: 102 سال بعد بھی زخم مندمل نہیں ہوئے

13 اپریل 1919 کو ایک برطانوی جنرل جس کا نام جنرل ڈائر تھا نے، اپنے سپاہیوں کو امرتسر کے جلیاں والا باغ میں پرامن احتجاجیوں کی بھیڑ پر گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا، جس میں سینکڑوں بھارتی شہری مارے گئے تھے۔

جلیا والا باغ سانحہ: 102 سال بعد بھی ہرے ہیں زخم
جلیا والا باغ سانحہ: 102 سال بعد بھی ہرے ہیں زخم
author img

By

Published : Apr 13, 2021, 12:43 PM IST

ملک کی آزادی کی تاریخ میں 13 اپریل کا دن ایک سانحہ کے ساتھ درج ہے۔ وہ سال 1919 تھا اور 13 اپریل کا دن تھا، جب جلیاں والا باغ میں ایک پرامن میٹنگ کے لئے جمع ہوئے ہزاروں بھارتیوں پر انگریز جنرل نے اندھادھن گولیاں برسائی تھیں۔ پنجاب کے امرتسر ضلع میں تاریخی سورن مندر کے نزدیک جلیاں والا باغ نام کے اس باغیچے میں انگریزوں کی فائرنگ سے خوفزدہ ہوکر بہت سی خواتین اپنے بچوں کو لے کرجان بچانے کے لئے کنویں میں کود گئیں۔ راستے محدود ہونے کی وجہ سے لوگ بھگڈر میں بھی کچلے گئے اور ہزاروں لوگ گولیوں کی زد میں آگئے۔

بتادیں، اس قتل عام کو آج 102 سال پورے ہو رہے ہیں۔ آج بھی اس دن کی کالی تصویروں کو لوگ بھلا نہیں پائے ہیں۔

جلیاں والا باغ قتل عام نے بھارت کے تحریک آزادی کو ایک اہم موڑ دیا تھا۔

سنہ 1951 میں بھارت سرکار نے جلیاں والا باغ قتل عام میں جان گنوانے والے ان سبھی مجاہدین آزادی کو یاد کرتے ہوئے ایک میموریل قائم کیا تھا۔

یہ میموریل آج بھی جدوجہد اور قربانی کی نشانی ہے اور نوجوانوں میں وطن سے محبت کو پیدا کرتا ہے۔

ایک نظر میں جلیاں والا باغ

رولیٹ ایکٹ 10 مارچ، 1919 کو پاس کیا گیا تھا، جس میں سرکار کو بغیر کسی مقدمے کے کسی بھی شخص کو ملک مخالف کاروائیوں میں شامل ہونے کا الزام لگاکر جیل میں رکھنے کا اختیار دیتا تھا۔ اس سے ملک گیر پیمانے پر لوگوں میں خوف و وحشت پھیل گئی۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے رولٹ ایکٹ کے خلاف ستیہ گرہ شروع کردیا۔

07 اپریل 1919 کو گاندھی نے رولٹ ایکٹ کی مخالفت کرنے کے طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے ستیہ گرہ نام کا ایک مضمون شائع کیا تھا۔

برٹش افسران نے اس ستیہ گرہ میں حصہ لینے والے مہاتما گاندھی سمیت تمام لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بات کی۔

برٹس افسران نے کاروائی کرتے ہوئے گاندھی جی کے پنجاب میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اس حکم کی مخالفت کرنے والوں کو گرفتار کرلیا جائے گا۔

ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال دو بڑے رہنما جو ہندو - مسلم اتحاد کے علمبردار تھے، انہوں نے امرتسر میں رولیٹ ایکٹ کے خلاف پرامن طور پر احتجاج و مظاہرہ کیا۔

9 اپریل 1919 کو رام نومی کے دن جنرل ڈائر نے اس وقت کے موجودہ ڈپٹی کمشنر اروینگ کو ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر سیف الدین کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

19 نومبر 1919 کو امریتا بازار پتریکا نے ہنٹر کمیشن کے سامنے اروینگ کے گواہ کے بارے میں جانکاری دی اور برٹس افسران کی منشا پر روشنی ڈالا۔

10 اپریل 1919 کو اپنے دو رہنمائوں کو رہا کرنے کی مانگ کو لے کر احتجاجیوں نے ڈپٹی کمشنر کے رہائشگاہ تک مارچ کیا۔ اس مارچ کے دوران کئی لوگ زخمی ہوئے اور مارے بھی گئے۔ احتجاجیوں نے لاٹھیوں اور پھتروں سے جوابی حملہ کیا اور اپنے راستے میں آنے والے انگریزوں پر حملے بھی کئے۔

13 اپریل 1919 کو عوام بیساکھی منانے کے لئے جمع ہوئی، تاہم ، یہ برطانوی حکام کے نقطہ نظر سے ایک سیاسی اجتماع تھا۔

جنرل ڈائر کے احکامات کے باوجود لوگ جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے جہاں تبادلہ خیال ہونا تھا۔ 10 اپریل کو ہونے والی فائرنگ کی مذمت کرنا اور دوسرا افسران کو اپنے رہنمائوں کو رہا کرانے کی گزارش کرنا۔

جب اس بات کی جانکاری جنرل ڈائر کو ہوئی تو وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ جلیاں والا باغ پہنچا۔

ڈائر جلیاں والا باغ میں داخل ہوا اور اپنے فوجوں کو چاروں طرف تعینات کیا۔ اس کے بعد انہیں بغیر کسی وارننگ کے گولی چلانے کا حکم دیا۔ لوگ وہاں سے باہر نکلنے کے لئے بھاگے، لیکن ڈائر نے اپنے سپاہیوں کو باہر نکلنے والے جگہوں پر تعینات کر دیا تھا جہاں سے فائرنگ شروع ہوگئی۔

جنرل ڈائر کے سپاہی 10 سے 15 منٹ تک لگاتار فائرنگ کرتے رہے، اس فائرنگ میں 1650 راؤنڈ فائر کئے گئے۔ فائرنگ تب تک ہوتی رہی جب تک گولہ بارود ختم نہیں ہوگئے۔ جنرل ڈائر اور ڈروینگ نے اس فائرنگ میں تقریباً 291 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کی رپورٹ دی۔ حالانکہ مدن موہن مالویہ کی صدارت والی ایک کمیٹی سمیت دیگر رپورٹوں میں مرنے والوں کی تعداد 500 سے زیادہ بتائی گئی تھی۔

تقریباً 100 سال بعد بھی برٹش انڈیا کی تاریخ میں اس حادثے کو ظلم و جبر کی سب سے شرمناک کہانیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

2019 میں برطارنیہ کے موجودہ وزیراعظم بورسن جانسن نے جلیاں والا باغ قتل عام پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شرمناک تھا، حالانکہ انہوں نے اس پر معافی نہیں مانگی۔

ملک کی آزادی کی تاریخ میں 13 اپریل کا دن ایک سانحہ کے ساتھ درج ہے۔ وہ سال 1919 تھا اور 13 اپریل کا دن تھا، جب جلیاں والا باغ میں ایک پرامن میٹنگ کے لئے جمع ہوئے ہزاروں بھارتیوں پر انگریز جنرل نے اندھادھن گولیاں برسائی تھیں۔ پنجاب کے امرتسر ضلع میں تاریخی سورن مندر کے نزدیک جلیاں والا باغ نام کے اس باغیچے میں انگریزوں کی فائرنگ سے خوفزدہ ہوکر بہت سی خواتین اپنے بچوں کو لے کرجان بچانے کے لئے کنویں میں کود گئیں۔ راستے محدود ہونے کی وجہ سے لوگ بھگڈر میں بھی کچلے گئے اور ہزاروں لوگ گولیوں کی زد میں آگئے۔

بتادیں، اس قتل عام کو آج 102 سال پورے ہو رہے ہیں۔ آج بھی اس دن کی کالی تصویروں کو لوگ بھلا نہیں پائے ہیں۔

جلیاں والا باغ قتل عام نے بھارت کے تحریک آزادی کو ایک اہم موڑ دیا تھا۔

سنہ 1951 میں بھارت سرکار نے جلیاں والا باغ قتل عام میں جان گنوانے والے ان سبھی مجاہدین آزادی کو یاد کرتے ہوئے ایک میموریل قائم کیا تھا۔

یہ میموریل آج بھی جدوجہد اور قربانی کی نشانی ہے اور نوجوانوں میں وطن سے محبت کو پیدا کرتا ہے۔

ایک نظر میں جلیاں والا باغ

رولیٹ ایکٹ 10 مارچ، 1919 کو پاس کیا گیا تھا، جس میں سرکار کو بغیر کسی مقدمے کے کسی بھی شخص کو ملک مخالف کاروائیوں میں شامل ہونے کا الزام لگاکر جیل میں رکھنے کا اختیار دیتا تھا۔ اس سے ملک گیر پیمانے پر لوگوں میں خوف و وحشت پھیل گئی۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے رولٹ ایکٹ کے خلاف ستیہ گرہ شروع کردیا۔

07 اپریل 1919 کو گاندھی نے رولٹ ایکٹ کی مخالفت کرنے کے طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے ستیہ گرہ نام کا ایک مضمون شائع کیا تھا۔

برٹش افسران نے اس ستیہ گرہ میں حصہ لینے والے مہاتما گاندھی سمیت تمام لوگوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بات کی۔

برٹس افسران نے کاروائی کرتے ہوئے گاندھی جی کے پنجاب میں داخل ہونے پر پابندی لگا دی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ اس حکم کی مخالفت کرنے والوں کو گرفتار کرلیا جائے گا۔

ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال دو بڑے رہنما جو ہندو - مسلم اتحاد کے علمبردار تھے، انہوں نے امرتسر میں رولیٹ ایکٹ کے خلاف پرامن طور پر احتجاج و مظاہرہ کیا۔

9 اپریل 1919 کو رام نومی کے دن جنرل ڈائر نے اس وقت کے موجودہ ڈپٹی کمشنر اروینگ کو ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر سیف الدین کو گرفتار کرنے کا حکم دیا۔

19 نومبر 1919 کو امریتا بازار پتریکا نے ہنٹر کمیشن کے سامنے اروینگ کے گواہ کے بارے میں جانکاری دی اور برٹس افسران کی منشا پر روشنی ڈالا۔

10 اپریل 1919 کو اپنے دو رہنمائوں کو رہا کرنے کی مانگ کو لے کر احتجاجیوں نے ڈپٹی کمشنر کے رہائشگاہ تک مارچ کیا۔ اس مارچ کے دوران کئی لوگ زخمی ہوئے اور مارے بھی گئے۔ احتجاجیوں نے لاٹھیوں اور پھتروں سے جوابی حملہ کیا اور اپنے راستے میں آنے والے انگریزوں پر حملے بھی کئے۔

13 اپریل 1919 کو عوام بیساکھی منانے کے لئے جمع ہوئی، تاہم ، یہ برطانوی حکام کے نقطہ نظر سے ایک سیاسی اجتماع تھا۔

جنرل ڈائر کے احکامات کے باوجود لوگ جلیاں والا باغ میں جمع ہوئے جہاں تبادلہ خیال ہونا تھا۔ 10 اپریل کو ہونے والی فائرنگ کی مذمت کرنا اور دوسرا افسران کو اپنے رہنمائوں کو رہا کرانے کی گزارش کرنا۔

جب اس بات کی جانکاری جنرل ڈائر کو ہوئی تو وہ اپنے فوجیوں کے ساتھ جلیاں والا باغ پہنچا۔

ڈائر جلیاں والا باغ میں داخل ہوا اور اپنے فوجوں کو چاروں طرف تعینات کیا۔ اس کے بعد انہیں بغیر کسی وارننگ کے گولی چلانے کا حکم دیا۔ لوگ وہاں سے باہر نکلنے کے لئے بھاگے، لیکن ڈائر نے اپنے سپاہیوں کو باہر نکلنے والے جگہوں پر تعینات کر دیا تھا جہاں سے فائرنگ شروع ہوگئی۔

جنرل ڈائر کے سپاہی 10 سے 15 منٹ تک لگاتار فائرنگ کرتے رہے، اس فائرنگ میں 1650 راؤنڈ فائر کئے گئے۔ فائرنگ تب تک ہوتی رہی جب تک گولہ بارود ختم نہیں ہوگئے۔ جنرل ڈائر اور ڈروینگ نے اس فائرنگ میں تقریباً 291 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کی رپورٹ دی۔ حالانکہ مدن موہن مالویہ کی صدارت والی ایک کمیٹی سمیت دیگر رپورٹوں میں مرنے والوں کی تعداد 500 سے زیادہ بتائی گئی تھی۔

تقریباً 100 سال بعد بھی برٹش انڈیا کی تاریخ میں اس حادثے کو ظلم و جبر کی سب سے شرمناک کہانیوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔

2019 میں برطارنیہ کے موجودہ وزیراعظم بورسن جانسن نے جلیاں والا باغ قتل عام پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شرمناک تھا، حالانکہ انہوں نے اس پر معافی نہیں مانگی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.