ETV Bharat / state

ماحولیات کے تئیں بین الاقوامی لاپرواہی، خودکشی کے مترادف

author img

By

Published : Dec 21, 2019, 5:36 PM IST

مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ زمین، ہوا، پانی اور مٹی کو ہم نے ہمارے بچوں سے قرض پر حاصل کیا ہے جبکہ اسے اپنے آبا و اجداد کی وراثت نہیں کہا جاسکتا۔ اسے واپس کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ یہ سب ہماری آنے والی نسلوں کےلیے ہیں۔

2015 Paris Agreement
ماحولیات کے تئیں بین الاقوامی لاپرواہی، خودکشی کے مترادف

ہماری نسلیں ہم سے سیدھا سوال کر رہی ہیں کہ ترقی کے نام پر دنیا کو کیوں ایک گرم غبارے میں تبدیل کردیا اور اور کاربن کے بیجا اخراج سے دنیا کی آب و ہوا کو کیوں زندگی کےلیے خطرہ بنایادیا گیا۔

سویڈن کے میڈریڈ بین الاقوامی سطح پر کاپ 25 کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ماہرین نے سنجیدگی سے ماحولیات کے تحفظ کو لیکر غور و خوص کیا۔ انہوں نے اس کانفرنس میں موجودہ تباہ کن حالات پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔

کانفرنس میں 2015 کے پیرس معاہدہ کو عملی شکل دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ اس 14 روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں اس سلسلہ میں کچھ خاص پیشرفت نہیں دیکھی گئی۔

ایک اندازہ کے مطابق ایک سال کے دوران امریکہ میں 4.5 ٹن، چین میں 1.9 ٹن، یوروپی یونین میں 1.8 ٹن اور ہندوستان میں 0.5 ٹن کاربن کا اخراج ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلہ میں اس سے کاربن کا 59 فیصد زیادہ اخراج کیا گیا جبکہ بالترتیب چین میں 28 فیصد، امریکہ میں 15 فیصد، یوروپی یونین میں 9 فیصد اور ہندوستان میں 7 فیصد زیادہ کاربن کا اخراج عمل میں آیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے پیرس معاہدہ سے دستبرداری کے بعد بھارت اور چین پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ عالمی کانفرنس میں بھی اپنے عہد کو لیکر کچھ خاص پروگرام مرتب نہیں کیا گیا جبکہ کانفرنس صرف بیانوں تک ہی محدود رہی۔ دوسری جانب بھارت نے پیرس معاہدہ کے حوالہ سے بہتر نتائج کو دنیا کے سامنے رکھا ہے۔

ماحول اپنی گود میں انسانوں کے علاوہ مختلف جانداروں کی پرورش کرتا آرہا ہے لیکن ہمارے کچھ اقدامات کی وجہ سے ہم نے ماحول کو انسانیت کا دشمن بنادیا ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ترقی کے نام پر بنی نوع انسان کو مشکلات میں گھیرا جارہا ہے کیونکہ صنعتوں کی جانب سے کاربن کے اخراج کی وجہ سے ماحولیات کا توازن کھو رہا ہے اور عالمی حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اس سلسلہ میں بھارت اور چین پر دباؤ ڈالا جارہا ہے لیکن برازیل، جنوبی افریقہ، بھارت اور چین نے مشترکہ طور پر ترقی یافتہ ممالک کو کیوٹو پروٹوکول 2005 کے تحت پیرس معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے بہتر نتائج پر زور دیا ہے۔

بھارت نے صاف طور پر وضاحت پیش کی ہے کہ 2023 میں منعقد ہونے والی پیرس معاہدہ کانفرنس سے پہلے کاربن کے اخراج سے متعلق خودساختہ اہداف مرتب نہیں کئے جائیں گے۔

پیرس معاہدہ کے بعد بھی دنیا بھر میں 4 فیصد کاربن کے اخراج میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ کی جانب سے معاہدہ سے دستبرداری کے اعلان کے بعد کیوٹو پروٹوکول کے تحت امریکہ کے خلاف مناسب کاروائی نہیں کی گئی جبکہ امریکہ نے معاہدہ سے ہٹ کر دنیا کو بحران میں ڈال دیا ہے۔

جرنی واچ نامی ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق کارکبن اخراج کی فہرست میں بھارت 14 مقام سے گذشتہ سال 5 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

دنیا کے سبھی ممالک کو گلوبل وارمنگ کی قیمت بھیانک صورتحال سے چکانی پڑےگی جبکہ ایک ہی زمین کے نقطہ نظر پر شعور بیدار کرتے ہوئے ایک ایکشن پلان بنانے ضروری ہوگا اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ بنی نوع انسان کےلیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔

ہماری نسلیں ہم سے سیدھا سوال کر رہی ہیں کہ ترقی کے نام پر دنیا کو کیوں ایک گرم غبارے میں تبدیل کردیا اور اور کاربن کے بیجا اخراج سے دنیا کی آب و ہوا کو کیوں زندگی کےلیے خطرہ بنایادیا گیا۔

سویڈن کے میڈریڈ بین الاقوامی سطح پر کاپ 25 کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ماہرین نے سنجیدگی سے ماحولیات کے تحفظ کو لیکر غور و خوص کیا۔ انہوں نے اس کانفرنس میں موجودہ تباہ کن حالات پر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا۔

کانفرنس میں 2015 کے پیرس معاہدہ کو عملی شکل دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ اس 14 روزہ بین الاقوامی کانفرنس میں اس سلسلہ میں کچھ خاص پیشرفت نہیں دیکھی گئی۔

ایک اندازہ کے مطابق ایک سال کے دوران امریکہ میں 4.5 ٹن، چین میں 1.9 ٹن، یوروپی یونین میں 1.8 ٹن اور ہندوستان میں 0.5 ٹن کاربن کا اخراج ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال کے مقابلہ میں اس سے کاربن کا 59 فیصد زیادہ اخراج کیا گیا جبکہ بالترتیب چین میں 28 فیصد، امریکہ میں 15 فیصد، یوروپی یونین میں 9 فیصد اور ہندوستان میں 7 فیصد زیادہ کاربن کا اخراج عمل میں آیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے پیرس معاہدہ سے دستبرداری کے بعد بھارت اور چین پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔ عالمی کانفرنس میں بھی اپنے عہد کو لیکر کچھ خاص پروگرام مرتب نہیں کیا گیا جبکہ کانفرنس صرف بیانوں تک ہی محدود رہی۔ دوسری جانب بھارت نے پیرس معاہدہ کے حوالہ سے بہتر نتائج کو دنیا کے سامنے رکھا ہے۔

ماحول اپنی گود میں انسانوں کے علاوہ مختلف جانداروں کی پرورش کرتا آرہا ہے لیکن ہمارے کچھ اقدامات کی وجہ سے ہم نے ماحول کو انسانیت کا دشمن بنادیا ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ ترقی کے نام پر بنی نوع انسان کو مشکلات میں گھیرا جارہا ہے کیونکہ صنعتوں کی جانب سے کاربن کے اخراج کی وجہ سے ماحولیات کا توازن کھو رہا ہے اور عالمی حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

اس سلسلہ میں بھارت اور چین پر دباؤ ڈالا جارہا ہے لیکن برازیل، جنوبی افریقہ، بھارت اور چین نے مشترکہ طور پر ترقی یافتہ ممالک کو کیوٹو پروٹوکول 2005 کے تحت پیرس معاہدہ پر عمل کرتے ہوئے بہتر نتائج پر زور دیا ہے۔

بھارت نے صاف طور پر وضاحت پیش کی ہے کہ 2023 میں منعقد ہونے والی پیرس معاہدہ کانفرنس سے پہلے کاربن کے اخراج سے متعلق خودساختہ اہداف مرتب نہیں کئے جائیں گے۔

پیرس معاہدہ کے بعد بھی دنیا بھر میں 4 فیصد کاربن کے اخراج میں اضافہ ہوا ہے اور امریکہ کی جانب سے معاہدہ سے دستبرداری کے اعلان کے بعد کیوٹو پروٹوکول کے تحت امریکہ کے خلاف مناسب کاروائی نہیں کی گئی جبکہ امریکہ نے معاہدہ سے ہٹ کر دنیا کو بحران میں ڈال دیا ہے۔

جرنی واچ نامی ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق کارکبن اخراج کی فہرست میں بھارت 14 مقام سے گذشتہ سال 5 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

دنیا کے سبھی ممالک کو گلوبل وارمنگ کی قیمت بھیانک صورتحال سے چکانی پڑےگی جبکہ ایک ہی زمین کے نقطہ نظر پر شعور بیدار کرتے ہوئے ایک ایکشن پلان بنانے ضروری ہوگا اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یہ بنی نوع انسان کےلیے خودکشی کے مترادف ہوگا۔

Intro:Body:Conclusion:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.