دہلی: سال 2006 میں سپریم کورٹ نے میرج رجسٹریشن کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جانے سے متعلق تمام ریاستوں کو حکم جاری کیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے حکم کو عملی جامہ پہنانے میں تقریبا 8 برس لگ گئے حالانکہ 8 برس بعد بھی دہلی کمپلسری میریجیز رجسٹریشن آرڈر 2014 میں خامیاں موجود تھیں۔ اب میریجیز رجسٹریشن کے لیے دو زمروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ان میں ہندو میرج ایکٹ اور اسپیشل میریج ایکٹ ہی ویب سائٹ پر نظر آتے ہیں اسی وجہ سے مسلمانوں کو نا چاہتے ہوئے بھی اسپیشل میریج ایکٹ کا ہی انتخاب کرنا پڑھتا تھا اسی خامی کو دیکھتے ہوئے ایڈووکیٹ مسرور صدیقی نے دہلی سرکار کو قانونی نوٹس بھیجا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے محمد راحم نے ایڈووکیٹ مسرور حسن صدیقی سے اس معاملے پر تفصیلی بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے اس کا نوٹس سال 2021 میں لیا تھا جس کے بعد دہلی ہائی کورٹ میں دہلی سرکار کے وکیل نے لکھ کر دیا تھا کہ وہ اس خامی کو دو ماہ کے اندر ٹھیک کر لیں گے لیکن اس بات کو 2 برس ہوجانے کے باوجود بھی اس خامی کو ٹھیک نہیں کیا گیا ہے اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتی برادریوں کو مجبورا رجسٹریشن کے دوران اسپیشل میریج ایکٹ کا انتخاب پڑھ رہا ہے۔
حالانکہ دہلی حکومت کی اس غلطی کو تقریبا 7 برس ہو چکے ہیں اور دہلی ہائی کورٹ کو حکم دیے تقریبا 2 برس کا وقفہ گزر چکا ہے، اس کے باوجود اس خامی کو اب تک دور نہیں کیا گیا۔ اب جب کہ ایک بار پھر سے ایڈووکیٹ مسرور صدیقی نے دہلی حکومت سمیت لیفٹیننٹ گورنر اور دیگر سرکاری محکموں کو نوٹس جاری کرکے اس ٹھیک کرنے کے لیے قانونی نوٹس بھیجا ہے تاکہ اسے ٹھیک کیا جا سکے۔ مسرور صدیقی نے نمائندے کو بتایا کہ انہوں نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ سال 2014 کے بعد سے اب تک جتنے بھی مسلم جوڑوں نے میرج رجسٹریشن کرانے کی کوشش کی ہے ان تمام لوگوں کے رجسٹریشن کو بھی ٹھیک کیا جائے کیونکہ یہ مسلم پرسنل لا میں کھلے طور پر مداخلت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Spl Marriage Act in Delhi: دہلی میں میرج رجسٹریشن کرانے والے جوڑوں کے گھر نہیں بھیجا جائے گا نوٹس