ETV Bharat / state

دہلی: بھارت کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر، کووڈ سینٹر کی رہنمائی کررہی ہے

خواجہ سرا کا نام سنتے ہی ہمارے ذہن میں جو شبیہ ابھرتی ہے اس شبیہ کی روایت شکنی کرتی ہوئی ڈاکٹر اقصیٰ شیخ ان لوگوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں جو گھربار چھوڑ کر اپنی منفرد شناخت کے حصول کے لئے مسلسل کوشش کررہی ہیں۔

بھارت کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر
بھارت کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر
author img

By

Published : Jul 3, 2021, 1:41 AM IST

Updated : Jul 3, 2021, 12:42 PM IST


سپریم کورٹ کے ذریعہ 2015 میں جاری نالسا ججمینٹ اور سنہ 2019 میں ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشنز آف رائٹس ایکٹ کے نفاذ کے بعد بھی خواجہ سراؤں کو معاشرہ میں وہ مقام حاصل نہیں ہوا جو ایک عام انسان کو میسر ہے۔ لوگ آج بھی انہیں حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ تاہم ایسے وقت میں ڈاکٹر اقصیٰ شیخ نے ان افراد کے راستہ سے ہٹ کر اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جنہوں نے سڑکوں پر کاسۂ گدائی لے کر یا شادی کی تقاریب میں خصوصی پروگرام پیش کرنے کو ہی اپنا پیشہ بنالیا ہے۔

بھارت کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر


ڈاکٹر اقصیٰ شیخ نے بیس برس کی عمر میں ہی الگ پہچان کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ تاہم اقصیٰ کی زندگی مختلف نشیب و فراز سے پُر رہی۔

پہلے تو گھر والوں نے ڈاکٹر اقصیٰ شیخ کی اس جنس تبدیلی کی کوشش پر اعتراض جتایا۔ بعد میں سماج اور مذہب کی دیوار آگے آگئی۔ تاہم بلند حوصلوں سے سرشار ڈاکٹر اقصیٰ نے سماج کی بنائے ہوئے فرسودہ روایات کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے روایت شکنی کی۔ عزمِ مصمم کے ذریعہ اپنا سفر جاری رکھا۔ اور بالآخر سخت محنت اور لگن کے بعد کامیابی ان کا مقدر بن گئی۔


اقصیٰ بتاتی ہیں کہ چار برس قبل جب انہوں نے اس شناخت کے ساتھ اپنی زندگی کے نئے باب کا آغاز کیا تو حسبِ روایت انہیں تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے لیے ان تنقیدوں اور لوگوں کے طعنوں سے جڑی وہ یادیں کربناک ہیں۔

اقصیٰ مزید کہتی ہیں کہ ان کی اس نئی شناخت کو لے کر سماج کے دو حصوں میں تقسیم نظر آئی۔

مزید پڑھیں:خواجہ سرا عبدالرشید اپنے اہل و عیال کا واحد کفیل


انہوں نے کہا کہ اگر سماج ہمیں سمجھے اور ہمیں عزت دے تو ہم لوگ بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ تاہم اگر سماج کا رویہ ہمارے ساتھ خوشگوار نہیں رہتا تو ہم جیسے لوگ آپ کو سڑکوں پر ہی نظر آئیں گے.


سپریم کورٹ کے ذریعہ 2015 میں جاری نالسا ججمینٹ اور سنہ 2019 میں ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشنز آف رائٹس ایکٹ کے نفاذ کے بعد بھی خواجہ سراؤں کو معاشرہ میں وہ مقام حاصل نہیں ہوا جو ایک عام انسان کو میسر ہے۔ لوگ آج بھی انہیں حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ تاہم ایسے وقت میں ڈاکٹر اقصیٰ شیخ نے ان افراد کے راستہ سے ہٹ کر اپنی منفرد شناخت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، جنہوں نے سڑکوں پر کاسۂ گدائی لے کر یا شادی کی تقاریب میں خصوصی پروگرام پیش کرنے کو ہی اپنا پیشہ بنالیا ہے۔

بھارت کی پہلی خواجہ سرا ڈاکٹر


ڈاکٹر اقصیٰ شیخ نے بیس برس کی عمر میں ہی الگ پہچان کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیا۔ تاہم اقصیٰ کی زندگی مختلف نشیب و فراز سے پُر رہی۔

پہلے تو گھر والوں نے ڈاکٹر اقصیٰ شیخ کی اس جنس تبدیلی کی کوشش پر اعتراض جتایا۔ بعد میں سماج اور مذہب کی دیوار آگے آگئی۔ تاہم بلند حوصلوں سے سرشار ڈاکٹر اقصیٰ نے سماج کی بنائے ہوئے فرسودہ روایات کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے روایت شکنی کی۔ عزمِ مصمم کے ذریعہ اپنا سفر جاری رکھا۔ اور بالآخر سخت محنت اور لگن کے بعد کامیابی ان کا مقدر بن گئی۔


اقصیٰ بتاتی ہیں کہ چار برس قبل جب انہوں نے اس شناخت کے ساتھ اپنی زندگی کے نئے باب کا آغاز کیا تو حسبِ روایت انہیں تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے لیے ان تنقیدوں اور لوگوں کے طعنوں سے جڑی وہ یادیں کربناک ہیں۔

اقصیٰ مزید کہتی ہیں کہ ان کی اس نئی شناخت کو لے کر سماج کے دو حصوں میں تقسیم نظر آئی۔

مزید پڑھیں:خواجہ سرا عبدالرشید اپنے اہل و عیال کا واحد کفیل


انہوں نے کہا کہ اگر سماج ہمیں سمجھے اور ہمیں عزت دے تو ہم لوگ بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ تاہم اگر سماج کا رویہ ہمارے ساتھ خوشگوار نہیں رہتا تو ہم جیسے لوگ آپ کو سڑکوں پر ہی نظر آئیں گے.

Last Updated : Jul 3, 2021, 12:42 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.