بھارت نے کسان تحریک کے سلسلے میں معروف بین الاقوامی شخصیات کے تبصرے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیتے ہوئے انہیں مشورہ دیا ہے کہ ایسی تحریکوں کو بھارت کی جمہوری سیاست کے تناظر میں دیکھا جانا چاہئے اور کوئی بھی تبصرہ کرنے سے پہلے حقائق کو پہلے سمجھنا چاہئے۔
وزارت خارجہ نے آج یہاں ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت کی پارلیمنٹ نے بحث و مباحثے کے بعد زراعت کے شعبے میں بہتری لانے کے لئے قوانین نافذ کئے ہیں۔ یہ اصلاحات کاشتکاروں کے لئے مزید اختیارات اور مارکیٹ تک براہ راست رسائی کو یقینی بناتی ہیں اور معاشی طور پر منافع بخش زراعت کی راہ بھی ہموار کرتی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے کچھ حصوں کے کسانوں کے ایک چھوٹے سے طبقوں کو ان اصلاحات پر کچھ اعتراض ہے۔ مظاہرین کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے حکومت نے ان کے نمائندوں کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کیں۔ مرکزی وزیر بات چیت میں شامل ہیں اور اب تک مذاکرات کے 11 دور ہوچکے ہیں۔ حکومت نے بھی قوانین ملتوی رکھنے کی تجویز پیش کی ہے اور یہ تجویز وزیر اعظم کی طرف سے آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: زرعی قوانین کو واپس لے حکومت: غلام نبی آزاد
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان سب کے باوجود یہ انتہائی بدقسمتی کی بات ہے کہ کچھ خودغرض گروہ احتجاج کرنے والوں پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے اور تحریک کو ناکام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ چیز ملک کے یوم جمہوریہ 26 جنوری کے موقع پر دیکھاگیا تھا۔