دستوری فریم کے اعداد وشمار ہیں۔
ہمارے دستور کی خصوصیت یہ ہیکہ یہ ایک تاریخی اور تفصیلی مسودہ ہے، دستور ہند کو ترتیب دینے میں بہت ساری سماجی اور اقتصادی خواہشات اور امیدوں وابستہ ہیں۔ کسی اور ملک کا دستور اتنا استحقاق نہیں رکھتا جتنا دستور ہند جمہوریت کو ملک میں نافذ کرنے کے قابل ہے۔
دستور ہند کی خاصیت یہ ہیکہ یہ دستور ایک وقت میں تمام کو حقوق فراہم کرتا ہے۔
ذات پات، مذہب، جنس، طبقاتی، معاشی حیثیت اور دیگر معاشرتی برائیوں سے قطع نظر آئینی حقوق کا مسودہ تیار کیا گیا ہے۔
بھارتی جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں جس میں کثیر الجماعتی جمہوریت ، آزاد عدلیہ ، انتخابی یونین ، مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے مابین اختیارات کی وضاحت، اقلیتوں کے لیے خصوصی تحفظ ، قبائل اور مظلوم طبقات کے لئے ریزرویشن اور سیکولرازم شامل ہے۔
کئی جمہوری ممالک کو جمہوریت حاصل کرنے کے لیے دستور کو مرتب کرنے میں مستقل جدوجہد کرنا پڑا اور برسوں تک اس کی مہم چلانی پڑی مگر ہمارے ملک کے دانشوروں نے بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مکمل دستور فراہم کیا،آئین کی مثالی 11 جلدیں اس بات کا ثبوت ہیں۔
متنوع نظریات کی یکجہتی
پہلا آئینی کنونشن 9 دسمبر 1946 کو ہوا تھا۔ آئین ترتیب دینے والے کمیٹی کے تقریبا 82 فیصد ارکان کانگریس کے ممبر تھے۔ ان کے خیالات ایک دوسرے کے متضاد تھے۔
اوریہ اتنا آسان نہیں تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا تحریری آئین بنانے کے لئے ان سب کو متحد کیا جائے۔
اس پورے عمل میں اگرچیکہ کانگریس کے ارکان اکثریت تھی مگر اسے ترتیب دینے میں اس بات کا بھی خیال رکھا گیا اور اس عمل میں دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو بھی شامل کیا گیا تاکہ آئین کو مخصوص پارٹی کے داخلی عمل کے طور پر نہیں دیکھا جائے،اس لیے آئینی فریم ورک کمیٹی کے چیرمین کے طور پر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کو منتخب کیا گیا۔
عظیم قائدین کی کوششیں
ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے انھیں دی گئی ذمہ داریوں کو بے مثال صلاحیتوں سے نبھایا۔ اگرچہ کمیٹی میں 300 افراد تھے جن میں صرف 20 افراد نے ہی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ کانگریس کی جانب سے ، جواہر لال نہرو ، سردار ولبھ بھائی پٹیل اور بابو راجندر پرساد نے اس میں نمایاں کردار ادا کیا۔
کے ایم منشی اور الاڈی کرشناسوامی آئیر کا کردار بھی نمایاں تھا۔ آئین پریشد کے قانونی مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے بی این راؤ اور چیف ڈرافٹس مین کے کردار میں ایس این مکھرجی کا انوکھا کردار بھی اتنا ہی قابل ستائش ہے۔
انضمام کو اہمیت دی گئی
1935 کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی بیشتر دفعات ، جو برطانوی حکمرانوں نے تشکیل دی تھیں، کو آئین ہند میں شامل کیا گیا تھا۔ جدید جمہوریتوں کے تجربات سے بہت کچھ نکالا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ تنقید ہوئی ہے کہ آئین سے ’بھارتییتہ‘ کے آثار ہٹا دیئے جارہے ہیں۔
مرکز ریاست تعلقات کے بارے میں کافی بحث ہوئی۔ جس کے بعد ایک ایسے وفاقی نظام کو تشکیل دیا گیا جو ریاستوں کو کچھ اختیارات کے ساتھ ایک خاص درجہ فراہم کرتی ہے۔
تحفظات کی حمایت
ڈاکٹر امبیڈکر نے اس وقت کے کمزور اور تکلیف جھیل رہے قبائلی طبقات کو تحفظات فراہم کرنے کا فیصلہ لیا۔
عوامی رائے
کچھ اور بھی ہے جو ہمارے آئین کو خاص بناتا ہے۔ دستور کو ترتیب دینے میں عوام سے رائے اور تجاویز بھی طلب کی گئیں جس میں کثیر تعداد میں نمائندگیاں موصول ہوئیں۔ جس کا تجزیہ کیا گیا اور اس پر کئی دنوں تک سماعتیں بھی ہوئیں۔
نفاذ کے بعد
آئین کے نافذ ہونے کے بعد بھی سفر آسان نہیں تھا۔ اراضی اصلاحات اور ہندو کوڈ بل پر صدر جمہوریہ نے خود اعتراض کیا تھا۔ صدر راجندر پرساد نے پوچھا کہ انہیں وزارتی مشورے کا پابند کیوں ہونا چاہئے؟ آئینی ماہرین نے کہا کہ یہ لازمی ہے۔ کچھ معاملات میں، یہاں تک کہ عدالتوں میں بھی، کوئی مثبت ردعمل سامنے نہیں آیا۔ عدالتی فیصلوں سے بچنے کے لئے متعدد آئینی ترمیم کیے گئے۔ ملک میں ایمرجنسی کے دوران مختلف آئینی دفعات کو کم کرنے کے لئے 42 ویں ترمیم پیش کی گئی تھی۔
عدالتی فیصلوں کا تحفظ
بھارت میں عدالت اور قانون کا تحفظ اور احترام کیا گیا اور کئی اہم موقعوں پر عدالتی فیصلے سازگار رہے۔
بھارت کا عظیم آئین ٹھیک 70 سال پہلے 26 نومبر 1949 کو منظور کیا گیا تھا۔ اس کامیاب سفر کے رہنما خود عام آدمی ہیں۔ بھارت میں کثیر الجماعتی سیاسی جمہوریت پھل پھولتی ہے اور انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں، کیونکہ یہ عام آدمی کا ووٹ ہی ہے جو جمہوریت کے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔