چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس وی راما سوبرمنیم پر مشتمل ڈویژن بینچ کی جانب سے وکیل کے پرمیشور کے ذریعہ دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے انکوائری کمیشن کو حتمی تحقیقاتی رپورٹ داخل کرنے کے لیے چھ ماہ کا مزید وقت دیا۔
سماعت کے دوران عرضی گزار کی جانب سے بتایا کہ کووڈ 19 وبا کی وجہ سے کمیشن کی میٹنگیں باقاعدہ طور پر نہیں ہوسکی ہیں۔ کیونکہ کمیشن کے تین ممبران ملک کے مختلف حصوں میں رہتے ہیں، جبکہ تفتیش کا مقام بالکل مختلف علاقے میں ہے۔ یہ بھی دلیل دی گئی تھی کہ کمیشن کے تین ممبران عمر دراز ہیں، لہذا کورونا مدت کے دوران ان کے باہر جانے کے سبب انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے تفتیش مکمل نہیں ہو سکی۔
کمیشن نے اپنی حتمی رپورٹ داخل کرنے کے لیے کم از کم مزید چھ ماہ وقت کی درخواست کی جسے عدالت نے قبول کرلیا۔
دریں اثنا درخواست گزاروں میں سے ایک بھرت یادو کے وکیل پردیپ یادو نے عدالت سے یہ یقینی بنانے کی اپیل کی کہ ملک کے کسی بھی حصے میں مستقبل میں حراست میں موت کا واقعہ نہ ہو۔ اس پر جسٹس بوبڈے نے کہا کہ عدالت یہ کیسے یقینی بنا سکتی ہے کہ مستقبل میں کسی کو بھی حراست میں موت نہیں ہوگی۔ کچھ لوگوں کی حراست میں فطری موت بھی ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا ’آپ ایک وکیل ہیں اور بطور وکیل آپ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہم یہ کیسے یقینی بنا سکتے ہیں کہ تحویل میں کوئی موت واقع نہیں ہوگی‘۔
تلنگانہ: نماز اور قربانی کو لیکر حکومت سے تعاون کا مطالبہ
واضح رہے کہ تلنگانہ کے حیدرآباد میں جنسی زیادتی اور قتل کے واقعے میں ملوث چار ملزمین گذشتہ برس دسمبر میں ایک تصادم میں ہلاک ہوگئے تھے جس کی تحقیقات کے لیے عدالت عظمی کے سابق جج وی ایس سرپورکر کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ کمیشن میں بامبے ہائی کورٹ کی سابق جج ریکھا پی سندر بالڈوٹا اور سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے سابق ڈائریکٹر ڈی آر کارتکیان بھی شامل ہیں۔