بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر ہمیشہ بھارت اور پاکستان کے بیچ تنازع کا موضوع رہا۔
اس تنازع کو حل کرنے کے متعدد سیاسی رہنماؤں نے کوششیں کی ہیں۔ ان رہنماؤں میں ایک نام آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کا بھی شامل ہے۔
آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے اپنے دور اقتدار میں کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے پرامن کوشش کی تھیں۔ وہ جنگ سے بچنے کی کوشش کرتے رہے۔
کشمیر کے معاملے میں واجپئی کو ہمیشہ بڑے دل والا رہنما کہا گیا۔ جس کا ثبوت انہوں نے بار بار اپنی حکمت عملی سے دیا بھی۔ ان فیصلوں میں سے ''لاہور ڈیکلریشن'' ایک تاریخی فیصلہ مانا گیا۔ جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں شدید کشیدگی کے باوجود بھی آنجہانی واجپئی نے اس معاہدے کے لیے پہل کی۔
اس فیصلے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان حالات میں بہتری کے بجائے کشیدگی پیدا ہوگئی کیوں کہ پاکستان کی جانب سے کرگل میں دراندازی کرنے کی کوشش کی گئی۔
تاہم حالات ناسازگار ہونے کے باوجود بھی واجپئی نے معاملے کو طول دینے کے بجائے اس کا حل نکالنے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کے اس وقت کے صدر پرویز مشرف کے ساتھ مذاکرات پر زور ڈالا۔
سنہ 2001 میں آگرہ میں اجلاس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اس وقت کمی آئی جب مشرف نے واجپئی سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کے زیر انتظامیہ کشمیر میں عسکریت پسندوں کے تربیت کیمپوں پر روک لگائیں گے۔
اس کے بعد کشمیر کی فضا بھی پر امن ہونے لگی۔ حالات میں بہتری دیکھ کر مرکزی حکومت نے وہاں سے فوج کی تعداد کم کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا تاہم، اس پر عمل نہیں ہوسکا۔
مسئلہ کشمیر پر انہوں نے کہا تھا کہ 'انسانیت کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہو وہ کشمیر کے لیے کیا جائے گا۔'
بھارت پاکستان کے بیچ مسئلہ کشمیر پر جب مذاکرات کی جارہی تھی اس وقت کشمیر علیحدگی پسند رہنماؤں نے اعتراض کیا کہ کشمیر کی بات چیت میں کشمیریوں کو بھی حصہ دار بنایا جائے۔ واجپئی نے اس مطالبے کو تسلیم کرلیا اور پہلی بار کشمیر کے علیحدگی پسند رہنماؤں کو بھارت پاکستان کے مابین ہونے والی مذاکرات کے لیے مدعو کیا گیا۔
واجپئی کی کشمیر پر حکمت عملی اور ان کے کرادر نے تاریخ رقم کرکے آنے والے وزیراعظموں کے لیے ایک کامیاب مثال قائم کی لیکن افسوس کا پہلو یہ رہا کہ ان کے نعرے کو زمینی سطح پر اتارنے کی کسی بھی رہنما نے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
اور آج حالات یہ ہیں کہ کشمیر ایک بار پھر 90 کی دہائی میں جا پہنچا ہے۔ دفعہ 370 کی منسوخی کے فیصلے نے کشمیر کو ایک بار پھر دلدل میں دھکیل دیا ہے اور ریاست کے حالات ایک بار پھر مزید ابتر ہوگئے ہیں جیسا کے میڈیا رپورٹز میں سامنے آرہے ہیں اور سول سوسائیٹی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے گذشتہ دنوں دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرکے اس کی تفصیلات پیش کی تھی۔ کمیٹی نے ویڈیو کے ذریعہ یہ وہاں کی صورتحال کو بتایا کہ وہاں حالات ابتر ہوچکے ہیں۔
واجپئی کا خود کو جانشین بتانے والے وزیراعظم نریندر مودی نے واجپئی کی حکمت عملی کے برخلاف کام کیا۔ انہوں نے نہ تو کشمیریوں کو گلے لگایا اور نہ ہی ان کے زخموں پر مرہم پاشی کی بلکہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ہی ختم کردیا جس کے سبب وہاں کے حالات دھماکہ خیز ہوچکے ہیں۔