ملک میں بڑھ رہے ہجومی تشدد پر شکنجہ کسنے اور خاص طور سے گذشتہ ماہ جون میں تشدد کا شکار ہوئے جھارکھنڈ کے مسلم نوجوان تبریز انصاری کے کنبے کیلئے انصاف کے مطالبہ کو لے کر آج ریاست ہریانہ کے میوات میں جامعہ صدیقیہ عین العلوم، نوح میں علمائے میوات کی ایک اہم میٹنگ منعقد کی گئی۔
میٹنگ میں ملک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل، ملک کے بدلتے ہوئے حالات اور مستقبل کے لائحہ عمل پر غور و فکر کیا گیا۔ میٹنگ کے بعد ہجومی تشدد پر شکنجہ کسنے اور تبریز انصاری کے کنبے کو انصاف دلانے کے لئے علمائے کرام کی موجودگی میں ایک میمورنڈم ڈپٹی کمشنر کی معرفت صدر جمہوریہ ہند کے نام سونپا گیا۔
اس موقع پر مفتی محمد تعریف سلیم ندوی نے کہا کہ اس ملک کی تہذیب گنگا جمنی تہذیب ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک ساتھ امن کے ساتھ رہیں گے۔ گائے سے برادران وطن پیار کرتے ہیں ہم بھی گائے کا احترام کرتے ہیں، ہم جب اردو پڑھتے ہیں تو ہمیں دوسری کلاس میں ہی پڑھایا جاتا ہے کہ" رب کا شکر ادا کر بھائی ۔ جس نے ہماری گائے بنائی" ہمیں بچپن میں ہی اس بات کا پیغام دیا گیا ہے کہ ہم گائے کو محترم سمجھتے ہیں۔ انہوں نے جے شری رام کے متعلق کہا کہ رام کے نام پر اگر غنڈہگردی کی جائےگی تو یقینا اس سے اتنی بڑی ہستی رام کا نام بد نام ہوگا۔ یہ سب کے لیے تشویش کی بات ہے۔
بھارت ماتا کے نعروں کے متعلق مفتی تعریف سلیم ندوی نے کہا کہ ماتا یعنی ماں اپنے بیٹوں کے اندر فرق نہیں کرتی خواہ بیٹا کالا ہو یا گورا، وہ سب کو یکساں سمجھتی ہے لیکن آج ملک میں کسی کو بھی مسلمان ہونے یا دلت ہونے کے نام پر مار دیا جا رہا ہے۔ یہ انتہائی دکھ کی بات ہے۔
مولانا راشد امین ندوی نے کہا کہ قانون کی بالادستی کو قائم رکھا جائے، ہجومی تشدد د اور ملک میں بدامنی پھیلانے والے عناصر پر کنٹرول کیا جانا بہت ضروری ہے۔ انسان کی جان بہت زیادہ قیمتی ہے۔اسے ناحق قتل کر دینا قطعی طور سے ناقابل برداشت ہے ۔
مولانا نسیم ٹپوکڑہ نے بتایا کہ آج کے اس پروگرام میں علماء میوات کی کثیر تعداد نے شرکت کی ہے اور سب نے ہجومی تشدد کے خلاف آواز اٹھائی ہے ساتھ ہی ڈپٹی کمشنر کی معرفت صدر جمہو ریہ کو میمورنڈم سونپا ہے۔