نئی دہلی: سنہ1947 کی تقسیم کا درد آج بھی لوگوں کے دلوں میں ہے لیکن اب بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو پاکستان سے بے گھر ہونے کے بعد بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دہلی کی بھاٹی مائنز میں مقیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے ہندو پناہ گزین اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مرکزی اور دہلی حکومت انہیں ان کے حقوق نہیں دے سکتی تو انہیں پاکستان واپس بھیج دیں۔ جنوبی دہلی کے بھاٹی مائنز علاقے میں رہنے والے ہندو پناہ گزین اب بھی تقسیم کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اس کے لیے اب یہاں لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھاٹی مائنز کا نام پی ایم ادے یوجنا کی تجویز میں آیا تھا، جس کی وجہ سے لوگ اس سے بہت خوش تھے۔ منصوبہ کے تحت سروے بھی شروع ہو گیا تھا، لیکن7 دسمبر 2022 کو ڈی ڈی اے کے جاری کردہ سرکلر نے بھاٹی مائنز میں رہنے والے لوگوں کے ہوش اڑا دیئے۔ ڈی ڈی اے کی طرف سے جاری کردہ ایک سرکلر میں بھاٹی مائنز سمیت نو مقامات کا نام تھا، جنہیں پی ایم ادے اسکیم سے محروم کردیا گیا۔
آزادی کے بعد جب ہندو مہاجرین یہاں آئے تو یہاں کان کنی کی جاتی تھی۔ اس وقت مزدور طبقے کے لوگ کانوں میں کام کیا کرتے تھے۔ کچھ سالوں کے بعد اس علاقے کو گرام سبھا میں تبدیل کر دیا گیا لیکن کان کنی کا کام بند ہونے کے بعد اسے فورسٹ لینڈ قرار دیا گیا۔ تب سے یہاں کے لوگ اپنے گھروں کو لے کر فکر مند ہوگئے انہیں نہیں معلوم کہ ان کا گھر کب منہدم کردیا جائے گا۔ تاہم جب پی ایم ادے یوجنا میں سنجے کالونی بھاٹی مائنز کا نام آیا تو یہاں کے لوگوں کے اندر امید جاگی۔ لیکن جب سے اس علاقے کو پی ایم ادے یوجنا سے باہر کردیا گیا،تب سے یہاں کے لوگ کافی ناراض ہیں۔ بھاٹی مائنز علاقے میں ملک بھر سے مختلف برادریوں کے لوگ رہتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر گوڑ برادری کے لوگ یہاں بکثرت ہیں۔ یہ ہندو مذہب کے لوگ ہیں۔ آزادی سے پہلے وہ پورے ملک میں مختلف مقامات پر رہ کر اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔ لیکن جب 1947 میں بھارت اور پاکستان کی تقسیم ہوئی تو بہت سے لوگ پاکستان سے بھارت آئے اور یہاں بھاٹی مائنز میں رہنے لگے۔ لیکن اب یہاں کے لوگ اپنی زمین کو لے کر بہت پریشان ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : DCW on Hindu Refugees ڈی سی ڈبلیو ہندو پناہ گزین خواتین کی حالت پر کررہا ہے مطالعہ