کرناٹک میں حجاب پر پابندی کے معاملہ پر مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ سال 2016 میں کیرالا ہائی کورٹ نے حجاب پر اپنا ایک فیصلہ دیا تھا کہ جس میں یہ مانا تھا کہ حجاب مسلم خواتین کا مذہبی فریضہ ہے۔ ایسے میں جب ہائی کورٹ اس طرح کا فیصلہ دے چکا ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دستور ہند کی وفعہ 14 برابری کا حق دیتی ہے جب کہ دفعہ 25 بھارت میں رہنے والے تمام مذاہب کے لوگوں کو آزادی کے ساتھ اپنے مذاہب پر چلنے کی اجازت دیتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حجاب، مسلم خواتین کی مذہبی ذمہ داری کا ایک حصہ ہے۔
وہیں اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے صدر محمد سلمان نے کہا کہ جب کسی ہندو لڑکی سے یہ نہیں کہا جاتا کہ وہ تلک لگا کر نہ آئے اور سکھ لڑکوں سے پگڑی پہن کر آنے کےلیے منع نہیں کیا جاتا تو پھر مسلم طالبات سے یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ وہ حجاب پہنچ کر نہ آئیں؟
انہوں نے کہا کہ حکومت کرناٹک کے یونیفارم سے متعلق احکامات میں یہ نہیں کہا گیا کہ کوئی مسلم لڑکی حجاب پہن کر نہیں آ سکتی۔ محمد سلمان نے مزید کہا کہ ہمیں کسی بھی مذہب کے لباس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
وہیں سماجی کارکن شبینا خان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی حجاب پہن رہا ہے تو اس سے کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے اور اگر کوئی اس پر پابندی لگا رہا ہے تو پھر ساڑی، سندور، منگل سوتر، جوڑا پر بھی پابندی لگائی جانی چاہیے۔