ETV Bharat / state

'دہلی سے بہتر تو جہنم ہے' - سپریم کورٹ کا ردعمل دلی کےفضائی آلودگی پر

ملک بھر بالخصوص دار الحکومت دہلی میں دن بہ دن فضائی آلودگی میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے جو انتہائی باعث تشویش ہے۔

بڑھتی ہوئی آلودگی پر سپریم کورٹ کا ردعمل
بڑھتی ہوئی آلودگی پر سپریم کورٹ کا ردعمل
author img

By

Published : Dec 4, 2019, 3:06 PM IST

ملک کے دارالحکومت دہلی جو اس وقت فضائی آلودگی سے گھری ہوئی ہے اس بڑھتی ہوئی آلودگی پر سپریم کورٹ کا ردعمل توجہ کا مرکز ہے۔ عدالت نے دہلی کے تناظر میں حکومت کی نظراندازی کی سخت نکتہ چینی کی اور سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہلی سے بہتر تو جہنم ہے۔

ساتھ میں عدالت نے پنجاب اور ہریانہ کے پرنسپل سکریٹری کو فصلوں کی باقیات کو جلانے کے سلسلے میں مناسب اقدام اور متبادل تلاش نہیں کرنے پر پھٹکار لگائی۔سپریم کورٹ نے دہلی میں بڑھتی ہوئی فضائی اور پانی کی آلودگی پر سخت اعتراض جتاتے ہوئے ریمارکس دیا کہ کیسے آپ عوام کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرسکتے ہیں اور اس آلودگی میں آپ نے انہیں مرنے کےلیےچھوڑ دیا ہے؟ اور یہ ان گنت متاثرین کی انعکاس کررہا ہے۔

حال ہی میں کیجریوال کی حکومت نے میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور تمام تعمیراتی کام اور مسمار کرنےکے عمل پر پابندیاں عائد کردی تھی۔ہریانہ نے اپنی طرف سے ایسےگاؤں کی نشاندہی کی ہے جو کثیر تعداد میں فصلوں کے باقیات جلانے میں سرگرم ہیں۔
پنجاب نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسانوں کو مالی تعاون کی یقین دہانی کو پورا کرے۔حکومت کسانوں کو یہ بتانے میں پوری طرح ناکام رہی کہ فصلوں کی باقیات پر ہل چلانے اور انہیں وہیں چھوڑ دینے سے زمین کے احاطے میں اضافہ ہوتا ہے اور لاکھوں مائیکرو ارگنسم کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔


عدالت نے پنجاب، دہلی، ہریانہ اور اترپردیش کی حکومت کی طرف سے بروقت اور متبادل انتظامات نہیں کرنے کی وجہ سے ہدایت جاری کی۔کم از کم مرکزی اور ریاستی حکومت کو ایندھن کو بدلنے کے لیےمتبادل راستے تلاش کرنا چاہیے اور ساتھ میں کسانوں کی شرکت کو یقنی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

نیشنل گرین ٹریبونل(این جی ٹی) نے چار برس قبل حکم دیا تھا کہ فصلوں کی باقیات کو جلانا ہی دہلی میں ہر برس بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی اصل وجہ ہے، جس پر پابندی عائد ہونی چاہیے لیکن حکومت نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔حالانکہ پنجاب اور ہریانہ کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فصلوں کے باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کردی ہے لیکن حقیقت میں کسانوں نے ابھی تک اس عمل سے گریز نہیں کیا ہے کیونکہ مشینی اوزاروں سے دھان کے ٹن ڈھیروں کو ہٹانا ان کی صلاحیت سے باہر ہے۔

مرکز کو فضائی آلودگی سے ماحولیاتی نظام اور ملک کو اس نقصان سے روکنے کی پہلے قدم کے طور پر الگ سے فنڈ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں سالانہ دس لاکھ ٹن فصلوں کی باقیات کو جلایا جاتا ہے، جس میں سے پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش کی حصہ داری نصف سے زائد ہوتی ہے، لہذا فوری کارروائی یہیں سے شروع کرنےکی ضرورت ہے۔

بھوسہ جلانے کی وجہ سے فضائی آلودگی اور گیس چیمبر جیسے ماحول میں رہنے والے عوام کی حالت زار صرف دہلی تک محدود نہیں ہے۔فضائی آلودگی سے متعلق اموات دہلی کے مقابلے میں یوپی ، مہاراشٹر ، بہار ، مغربی بنگال اور راجستھان میں زیادہ ہیں۔

اس مہینے دہلی، ہریانہ، باغپت، غازی آباد، ہاپور، لکھنؤ،مرادآباد، نوئیڈا، کانپور اور سرسا کا ائیر کوالٹی انڈیکس دہلی سے بھی بدتر ہے۔ملک کے تین تہائی سے زائد افراد شہروں اور قصبوں میں زہریلی دھواں کے اندر سانس لے رہا ہے ،جو ملک بھر کے آلودگی کنٹرول کے بدعنوانی طریقے کار کا پردہ فاش کرتے ہیں۔

این جی ٹی نے سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کو تین ماہ کے اندر آلودگی پھیلانے والے صنعت کو بند کرنے کی ہدایت دی تھی۔ضوابط کی پامالی اور آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات کا فقدان ہمارے ملک میں دہلی جیسے شہروں میں اضافہ کر رہا ہے۔

ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے 25 سال قبل متنبہ کیا تھا کہ اگر پانی اور ہوا کی آلودگی پر قابو نہ پایا گیا تو ، ایشیاء بحر الکاہل کے خطے میں آب و ہوا میں تبدیلی کا خطرہ رونما ہوگا۔اس طرح کے مشوروں کو نظر انداز کرنا ہی حال میں انتشار کی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

راجستھان، اترپردیش اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں ، فضائی آلودگی کی وجہ سے شہریوں کی زندگی کی متوقع مدت میں دو سال سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ملک بھر میں گرد آلودہ ہوا آج ہر آٹھ میں سے ایک کی موت کی وجہ بن رہے ہیں۔جبکہ فضائی آلودگی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر فی ملین اوسط اموات کی شرح 64 ہیں جبکہ ہندوستان میں یہ 134 ہے۔

نیشنل کلیر ائیر پلان(این کے اے پی) نے جنوری 2012 کو اعلان کیا تھا کہ ایکشن پلان کے لیے 102 شہروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔امید ہےکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی مشترکہ کوششوں سے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے خلاف جنگ کو فتح کیا جاسکتا ہے۔


موسی ندی کی آلودگی سے متعلق ہائی کورٹ کا ردعمل اور دہلی آلودگی کے مسئلے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوا اور پانی کے آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے صورتحال اور مستقبل کے قومی بحران کو واضح کررہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک چین نے آلودگی پھیلانے والی صنعتوں اورگاڑیوں کے خلاف سخت قوانین نافذ کرکے اس مسئلے کو آسانی سے حل کیا۔

وہ ممالک جو صفائی ستھرائی سے اپنی ثقافت بناتے ہیں اور اپنی عوام میں شعور بیدار کرتے ہیں جس سے وہ عالمی موسمیاتی تحفظ میں بہت زیادہ تعاون کر رہے ہیں۔
جہاں کوپن ہیگن نے سائیکلوں کے استعمال کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا ہے ،وہیں زامبی (انڈونیشیا) جیسے شہر تیزی سے پودوں کی افزائش اور کچرے سے میتھین کی پیداوار کے لیے زور دے رہے ہیں۔

ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرکے، قوانین کو سختی سے نافذ اور سائنس و ٹکنالوجی کی مدد سے ہم اپنے ماحول کو محفوظ کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کے لئے فکرمندی ہی ماحول کو بچائے گی اور زمین کو رہنے کے لئے ایک بہتر مقام بنائے گی۔

ملک کے دارالحکومت دہلی جو اس وقت فضائی آلودگی سے گھری ہوئی ہے اس بڑھتی ہوئی آلودگی پر سپریم کورٹ کا ردعمل توجہ کا مرکز ہے۔ عدالت نے دہلی کے تناظر میں حکومت کی نظراندازی کی سخت نکتہ چینی کی اور سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہلی سے بہتر تو جہنم ہے۔

ساتھ میں عدالت نے پنجاب اور ہریانہ کے پرنسپل سکریٹری کو فصلوں کی باقیات کو جلانے کے سلسلے میں مناسب اقدام اور متبادل تلاش نہیں کرنے پر پھٹکار لگائی۔سپریم کورٹ نے دہلی میں بڑھتی ہوئی فضائی اور پانی کی آلودگی پر سخت اعتراض جتاتے ہوئے ریمارکس دیا کہ کیسے آپ عوام کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرسکتے ہیں اور اس آلودگی میں آپ نے انہیں مرنے کےلیےچھوڑ دیا ہے؟ اور یہ ان گنت متاثرین کی انعکاس کررہا ہے۔

حال ہی میں کیجریوال کی حکومت نے میڈیکل ایمرجنسی کا اعلان کیا تھا اور تمام تعمیراتی کام اور مسمار کرنےکے عمل پر پابندیاں عائد کردی تھی۔ہریانہ نے اپنی طرف سے ایسےگاؤں کی نشاندہی کی ہے جو کثیر تعداد میں فصلوں کے باقیات جلانے میں سرگرم ہیں۔
پنجاب نے مرکز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کسانوں کو مالی تعاون کی یقین دہانی کو پورا کرے۔حکومت کسانوں کو یہ بتانے میں پوری طرح ناکام رہی کہ فصلوں کی باقیات پر ہل چلانے اور انہیں وہیں چھوڑ دینے سے زمین کے احاطے میں اضافہ ہوتا ہے اور لاکھوں مائیکرو ارگنسم کو تباہ ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔


عدالت نے پنجاب، دہلی، ہریانہ اور اترپردیش کی حکومت کی طرف سے بروقت اور متبادل انتظامات نہیں کرنے کی وجہ سے ہدایت جاری کی۔کم از کم مرکزی اور ریاستی حکومت کو ایندھن کو بدلنے کے لیےمتبادل راستے تلاش کرنا چاہیے اور ساتھ میں کسانوں کی شرکت کو یقنی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

نیشنل گرین ٹریبونل(این جی ٹی) نے چار برس قبل حکم دیا تھا کہ فصلوں کی باقیات کو جلانا ہی دہلی میں ہر برس بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کی اصل وجہ ہے، جس پر پابندی عائد ہونی چاہیے لیکن حکومت نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔حالانکہ پنجاب اور ہریانہ کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے فصلوں کے باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کردی ہے لیکن حقیقت میں کسانوں نے ابھی تک اس عمل سے گریز نہیں کیا ہے کیونکہ مشینی اوزاروں سے دھان کے ٹن ڈھیروں کو ہٹانا ان کی صلاحیت سے باہر ہے۔

مرکز کو فضائی آلودگی سے ماحولیاتی نظام اور ملک کو اس نقصان سے روکنے کی پہلے قدم کے طور پر الگ سے فنڈ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔ملک میں سالانہ دس لاکھ ٹن فصلوں کی باقیات کو جلایا جاتا ہے، جس میں سے پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش کی حصہ داری نصف سے زائد ہوتی ہے، لہذا فوری کارروائی یہیں سے شروع کرنےکی ضرورت ہے۔

بھوسہ جلانے کی وجہ سے فضائی آلودگی اور گیس چیمبر جیسے ماحول میں رہنے والے عوام کی حالت زار صرف دہلی تک محدود نہیں ہے۔فضائی آلودگی سے متعلق اموات دہلی کے مقابلے میں یوپی ، مہاراشٹر ، بہار ، مغربی بنگال اور راجستھان میں زیادہ ہیں۔

اس مہینے دہلی، ہریانہ، باغپت، غازی آباد، ہاپور، لکھنؤ،مرادآباد، نوئیڈا، کانپور اور سرسا کا ائیر کوالٹی انڈیکس دہلی سے بھی بدتر ہے۔ملک کے تین تہائی سے زائد افراد شہروں اور قصبوں میں زہریلی دھواں کے اندر سانس لے رہا ہے ،جو ملک بھر کے آلودگی کنٹرول کے بدعنوانی طریقے کار کا پردہ فاش کرتے ہیں۔

این جی ٹی نے سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کو تین ماہ کے اندر آلودگی پھیلانے والے صنعت کو بند کرنے کی ہدایت دی تھی۔ضوابط کی پامالی اور آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات کا فقدان ہمارے ملک میں دہلی جیسے شہروں میں اضافہ کر رہا ہے۔

ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے 25 سال قبل متنبہ کیا تھا کہ اگر پانی اور ہوا کی آلودگی پر قابو نہ پایا گیا تو ، ایشیاء بحر الکاہل کے خطے میں آب و ہوا میں تبدیلی کا خطرہ رونما ہوگا۔اس طرح کے مشوروں کو نظر انداز کرنا ہی حال میں انتشار کی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔

راجستھان، اترپردیش اور ہریانہ جیسی ریاستوں میں ، فضائی آلودگی کی وجہ سے شہریوں کی زندگی کی متوقع مدت میں دو سال سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ملک بھر میں گرد آلودہ ہوا آج ہر آٹھ میں سے ایک کی موت کی وجہ بن رہے ہیں۔جبکہ فضائی آلودگی کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر فی ملین اوسط اموات کی شرح 64 ہیں جبکہ ہندوستان میں یہ 134 ہے۔

نیشنل کلیر ائیر پلان(این کے اے پی) نے جنوری 2012 کو اعلان کیا تھا کہ ایکشن پلان کے لیے 102 شہروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔امید ہےکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی مشترکہ کوششوں سے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے خلاف جنگ کو فتح کیا جاسکتا ہے۔


موسی ندی کی آلودگی سے متعلق ہائی کورٹ کا ردعمل اور دہلی آلودگی کے مسئلے سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوا اور پانی کے آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے صورتحال اور مستقبل کے قومی بحران کو واضح کررہے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ملک چین نے آلودگی پھیلانے والی صنعتوں اورگاڑیوں کے خلاف سخت قوانین نافذ کرکے اس مسئلے کو آسانی سے حل کیا۔

وہ ممالک جو صفائی ستھرائی سے اپنی ثقافت بناتے ہیں اور اپنی عوام میں شعور بیدار کرتے ہیں جس سے وہ عالمی موسمیاتی تحفظ میں بہت زیادہ تعاون کر رہے ہیں۔
جہاں کوپن ہیگن نے سائیکلوں کے استعمال کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا ہے ،وہیں زامبی (انڈونیشیا) جیسے شہر تیزی سے پودوں کی افزائش اور کچرے سے میتھین کی پیداوار کے لیے زور دے رہے ہیں۔

ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرکے، قوانین کو سختی سے نافذ اور سائنس و ٹکنالوجی کی مدد سے ہم اپنے ماحول کو محفوظ کرسکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آنے والی نسلوں کی فلاح و بہبود کے لئے فکرمندی ہی ماحول کو بچائے گی اور زمین کو رہنے کے لئے ایک بہتر مقام بنائے گی۔

Intro:Body:Conclusion:

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.