ETV Bharat / state

شرجیل امام کی ضمانت کی درخواست پر سماعت ملتوی

دہلی کی کڑکڑ ڈوما کورٹ نے دہلی تشدد کیس کے ملزم شرجیل امام کی درخواست ضمانت پر سماعت کو ملتوی کردیا۔ اس معاملے میں آئندہ سماعت 9 ستمبر کو ہوگی۔

author img

By

Published : Sep 4, 2021, 6:58 PM IST

شرجیل امام
شرجیل امام

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ دہلی پولیس کی جانب سے دلائل پیش کرنے کے لیے وکیل خرابئ صحت کے سبب دستیاب نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے 9 ستمبر تک سماعت کو ملتوی کردیا۔ گزشتہ 2 ستمبر کو سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ شرجیل امام نے بھارت کی خودمختاری کو چیلنج کیا تھا اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی تھی۔

دہلی پولیس نے شرجیل امام کے خلاف آئی پی سی کی دفعات 124 اے، 153 اے، 505 اور یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے 22 جنوری 2020 کو آسنسول میں شرجیل امام کی تقریر پڑھتے ہوئے کہا کہ شرجیل نے اپنی تقریر میں خاص طور پر کہا تھا کہ لوگ سڑکوں پر ہیں، سی اے اے یا این آر سی کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر مسائل کی وجہ سے۔ امت پرساد نے کہا تھا کہ 'انہوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ سی اے اے یا این آر سی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تین طلاق اور کشمیر ہے۔ پچھلی تقریروں میں بھی واضح طور پر اشارہ کیا کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے، مسلمانوں کے لیے اب کوئی امید نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'شرجیل نے اپنی تقریر میں دیگر ممالک بشمول بنگلہ دیش اور پاکستان سے سی اے اے اور این آر سی کے معاملے پر غور کرنے کی اپیل کی تھی اور اس لیے وہ حکومت ہند کی بات نہیں سنیں گے۔ امت پرساد نے دلیل دی تھی کہ 'اسی لیے وہ (شرجیل) کہتا ہے کہ یہ 5-6 ممالک کا مسئلہ ہے اور میں بھارتی حکومت کی نہیں سنوں گا۔ کیا وہ خودمختاری کو چیلنج نہیں کررہا؟ وہ کہتا ہے کہ بھارتی حکومت بھارت میں قانون نہیں بنا سکتی۔' میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اس نے مایوسی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی۔

پرساد نے تقریر کا وہ خاص حصہ بھی پڑھا تھا جس میں شرجیل نے مبینہ طور پر 'حراستی کیمپ' لفظ کا استعمال کیا تھا۔ امت پرساد نے مزید کہا تھا کہ 'اس سے بڑھ کر اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ تشدد پر اکسارہا ہے؟ پرساد نے اصرار کیا کہ شرجیل سی اے اے اور این آر سی پر اسی طرح کی تقاریر کرنے کے لیے جگہ جگہ گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی تھی کہ دہلی فسادات گزشتہ برس 22 اور 23 جنوری کو آسنسول اور جھارکھنڈ میں ان کی تقریروں کے چار ہفتے بعد ہوئے تھے۔ پرساد نے کہا کہ 23 جنوری 2020 کو جھارکھنڈ میں اپنی تقریر میں شرجیل نے کہا تھا کہ 'لوگوں میں غصے کو استعمال کیا جانا چاہیے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شرجیل کی تقریر پر انحصار کرتے ہوئے پراسیکیوشن نے دلیل دی تھی کہ شرجیل امام نے اپنی تقریر کا آغاز 'السلام علیکم' سے کیا تھا جو کہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک خاص کمیونٹی سے مخاطب کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرجیل نے یہ کہہ کر ہجوم کو اُکسانے کی کوشش کی کہ 'اگر لوگ ناراض ہیں تو غصے کو نتیجہ خیز طور پر استعمال کرنا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل اس کیس میں ضمانت کی درخواست پر شرجیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ تقریروں میں ایسا کچھ نہیں ہے جس میں کسی تشدد کی بات کی گئی ہو یا جس کی بنیاد پر اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: Sharjeel Imam Case: "حکومت کی مخالفت کرنا آئینی حق"

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ یہ تقریر علماء کے ایک گروہ کے درمیان ایک 'دانشورانہ بحث' کے حصے کے طور پر دی گئی ہے اور ان پر محض ایک نظریہ رکھنے کی وجہ سے مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا جو حکومت سے مختلف ہے۔ ایڈووکیٹ میر نے کہا تھا کہ 'تنقید کا عنصر ہمارے معاشرے میں بھی ضروری ہے کیونکہ جس معاشرے میں تنقید مرے گی وہ معاشرہ مر جائے گا۔ اس لیے بالآخر جمہوریت میں آئین کی حفاظت کی ذمہ داری عزت مآب کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ تفتیشی افسر نے شرجیل کی تقریر سے 'منتخب لائنز' لی ہیں اور اسے غیر قانونی تناظر میں پیش کیا ہے۔ اس کیس کی آئندہ سماعت 9 ستمبر کو ہوگی۔

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ دہلی پولیس کی جانب سے دلائل پیش کرنے کے لیے وکیل خرابئ صحت کے سبب دستیاب نہیں ہے جس کے بعد عدالت نے 9 ستمبر تک سماعت کو ملتوی کردیا۔ گزشتہ 2 ستمبر کو سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ شرجیل امام نے بھارت کی خودمختاری کو چیلنج کیا تھا اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش کی تھی۔

دہلی پولیس نے شرجیل امام کے خلاف آئی پی سی کی دفعات 124 اے، 153 اے، 505 اور یو اے پی اے کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے 22 جنوری 2020 کو آسنسول میں شرجیل امام کی تقریر پڑھتے ہوئے کہا کہ شرجیل نے اپنی تقریر میں خاص طور پر کہا تھا کہ لوگ سڑکوں پر ہیں، سی اے اے یا این آر سی کی وجہ سے نہیں بلکہ دیگر مسائل کی وجہ سے۔ امت پرساد نے کہا تھا کہ 'انہوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ سی اے اے یا این آر سی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تین طلاق اور کشمیر ہے۔ پچھلی تقریروں میں بھی واضح طور پر اشارہ کیا کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے، مسلمانوں کے لیے اب کوئی امید نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 'شرجیل نے اپنی تقریر میں دیگر ممالک بشمول بنگلہ دیش اور پاکستان سے سی اے اے اور این آر سی کے معاملے پر غور کرنے کی اپیل کی تھی اور اس لیے وہ حکومت ہند کی بات نہیں سنیں گے۔ امت پرساد نے دلیل دی تھی کہ 'اسی لیے وہ (شرجیل) کہتا ہے کہ یہ 5-6 ممالک کا مسئلہ ہے اور میں بھارتی حکومت کی نہیں سنوں گا۔ کیا وہ خودمختاری کو چیلنج نہیں کررہا؟ وہ کہتا ہے کہ بھارتی حکومت بھارت میں قانون نہیں بنا سکتی۔' میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ اس نے مایوسی کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کی۔

پرساد نے تقریر کا وہ خاص حصہ بھی پڑھا تھا جس میں شرجیل نے مبینہ طور پر 'حراستی کیمپ' لفظ کا استعمال کیا تھا۔ امت پرساد نے مزید کہا تھا کہ 'اس سے بڑھ کر اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ تشدد پر اکسارہا ہے؟ پرساد نے اصرار کیا کہ شرجیل سی اے اے اور این آر سی پر اسی طرح کی تقاریر کرنے کے لیے جگہ جگہ گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی دلیل دی تھی کہ دہلی فسادات گزشتہ برس 22 اور 23 جنوری کو آسنسول اور جھارکھنڈ میں ان کی تقریروں کے چار ہفتے بعد ہوئے تھے۔ پرساد نے کہا کہ 23 جنوری 2020 کو جھارکھنڈ میں اپنی تقریر میں شرجیل نے کہا تھا کہ 'لوگوں میں غصے کو استعمال کیا جانا چاہیے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شرجیل کی تقریر پر انحصار کرتے ہوئے پراسیکیوشن نے دلیل دی تھی کہ شرجیل امام نے اپنی تقریر کا آغاز 'السلام علیکم' سے کیا تھا جو کہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ ایک خاص کمیونٹی سے مخاطب کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شرجیل نے یہ کہہ کر ہجوم کو اُکسانے کی کوشش کی کہ 'اگر لوگ ناراض ہیں تو غصے کو نتیجہ خیز طور پر استعمال کرنا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل اس کیس میں ضمانت کی درخواست پر شرجیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ تقریروں میں ایسا کچھ نہیں ہے جس میں کسی تشدد کی بات کی گئی ہو یا جس کی بنیاد پر اس کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: Sharjeel Imam Case: "حکومت کی مخالفت کرنا آئینی حق"

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ یہ تقریر علماء کے ایک گروہ کے درمیان ایک 'دانشورانہ بحث' کے حصے کے طور پر دی گئی ہے اور ان پر محض ایک نظریہ رکھنے کی وجہ سے مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا جو حکومت سے مختلف ہے۔ ایڈووکیٹ میر نے کہا تھا کہ 'تنقید کا عنصر ہمارے معاشرے میں بھی ضروری ہے کیونکہ جس معاشرے میں تنقید مرے گی وہ معاشرہ مر جائے گا۔ اس لیے بالآخر جمہوریت میں آئین کی حفاظت کی ذمہ داری عزت مآب کے ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ تفتیشی افسر نے شرجیل کی تقریر سے 'منتخب لائنز' لی ہیں اور اسے غیر قانونی تناظر میں پیش کیا ہے۔ اس کیس کی آئندہ سماعت 9 ستمبر کو ہوگی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.