کہا جاتا ہے کہ دہلی میں اتنی دفعہ قتل و غارت گری ہوئی ہے کہ ہر جگہ قبریں ہی قبریں نظر آتی ہیں اسی لیے پوری دہلی کو قبرستان کہا جاتا ہے۔
بھارتی مسلمانوں میں قبرستان کے لیے کوئی جگہ مختص کرنے کا کوئی رواج نہیں رہا۔ اس کے پیچھے شاید یہی سبب ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق موت کے بعد انسان کا جسم کسی خاص خصوصیت کا حامل نہیں رہتا۔
تاہم قدیم دور سے یہ روایت ضرور رہی ہے کہ اکثر لوگ یہ خواہش رکھتے تھے کہ انہیں اسی جگہ دفن کیا جائے جہاں ان کے پیر و مرشد کا آستانہ ہو، کیونکہ عام طور پر ایسا مانا جاتا تھا کہ بزرگوں کے پاس تدفین کرنا زیادہ بہتر ہے۔
اسی وجہ سے دہلی میں جتنی بھی خانقاہیں موجود ہیں ان کے ارد گرد بڑی تعداد میں قبریں دیکھی جا سکتی ہیں خواہ وہ حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے درگاہ پر ہوں یا پھر خواجہ بختیار کاکیؒ کی۔
حالانکہ مدینہ میں واقع جنت البقی قبرستان نبی پاک کے زمانے سے موجود ہے، لیکن اس کے باوجود ابھی بھی گاؤں دیہات میں لوگ قبرستان میں تدفین کرنے کے بجائے اپنی زمین میں ہی دفن کرتے ہیں۔
جیسے۔ جیسے دہلی میں آبادی بڑھتی گئی ویسے۔ ویسے جدید قبرستان کی ضرورت محسوس کی جانے لگی اور اسی ضرورت کے لحاظ سے دہلی گیٹ قبرستان کا قیام عمل میں آیا، حالانکہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی اور قبرستان اس سے پہلے مختص نہیں کیا گیا، لیکن دہلی گیٹ کا قبرستان کافی بڑا اور اپنے اندر ایک تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔