ETV Bharat / state

'دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی'

فضائی آلودگی اور اس کے معیار میں مسلسل ہورہی گراوٹ لوگوں کی زندگی میں منفی اثرات مرتب کررہی ہے، اور قومی دارالحکومت دہلی کی موجودہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے۔

author img

By

Published : Nov 18, 2019, 11:09 PM IST

دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی

انسانوں کا قدرتی وسائل کے استعمال کو لےکر لاپرواہی کی وجہ سے ماحولیات کو شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔153 ممالک اور 11،258 سائنس دانوں پر مشتمل ایک بین الاقوامی کمیٹی نے ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔غیر موسمی بارش، سیلاب، قحط سالی، زلزلہ،سونامی، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشئر کا تیزی سے پگھلنا، سمندری سطح کا بڑھنا ماحولیات کو شدید متاثر کررہا ہے جو مستقبل میں مشکلات کا باعث بنیں گی۔

صنعت کاری، شہرکاری، ترقی اور جنگلات کی کٹائی کے آڑ میں ہم قدرتی نظام کے توازن کو درہم برہم کررہیں ہیں۔انسانی تہذیب کے ابتدائی دور میں انسان شکار کرنے کا عادی تھا اور انسان نے انسانی زندگی کی ترقی کے دوران قدرت کو اپنی ضروریات کے مطابق تباہ و برباد کرنا شروع کردیا ۔ماحولیات میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے سبب کھانا، پانی اور ہوا کو آلودہ کررہا ہے۔

دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی
دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی
دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی
دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی

دہلی اور اس کے اطراف میں فضائی آلودگی (اے کیو آئی) کا حد سے زیادہ خراب ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔جہاں اس صورتحال کو بدتر بنانے میں جغرافیائی حالات نے چھوٹا کردار ادا کیا ہے وہیں ماحولیاتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے انسانوں نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، دہلی میں دیوالی کے وقت آتش بازی کرنا اور فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کی وجہ سے اے کیو آئی 500 پوائنٹ تک پہنچ گئی جو ایک آلارم کی گھنٹی ہے۔

اگر اے کیو آئی 400 سے 500 کے درمیان پہنچ جاتا ہے تو یہ ماحولیاتی نظام کے لیے تشویشناک سمجھا جاتا ہے۔پولیوشن کنٹرول بورڈ نے بتایا کہ اے کیو آئی کی 500 سے زیادہ پہنچنا نقصاندہ ہے۔ دہلی میں ائیر کوالٹی کی ابتر حالت سے روزمرہ زندگی بری طریقے سے متاثر ہورہی ہے۔لوگ بغیر ماسک لگائے گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کررہیں جو دہلی کے ابتر صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔صرف دہلی نہیں بلکہ گروگرام، غازی آباد، نوئیڈا، فرید آباد بھی فضائی آلودگی کے زد میں ہیں۔

مہاراشٹر، اڈیشہ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کچھ ایسی ریاستیں ہیں جو زہریلے اخراج سے متاثر ہیں۔موسمیاتی تبدیلی نے اس صورتحال کو بد سے بدتر کردیا ہے۔سردی میں ہونے والی دھند کے ساتھ ساتھ گاڑیوں صنعت اور کھیت سے نکالنے والے زہریلے دھوئیں لوگوں کا دم گھونٹ رہیں ہیں۔دہلی کی پڑوسی ریاستیں پنجاب اور ہریانہ زرعی طور پر ترقی یافتہ ہیں اور ان دو ریاستوں میں فصلوں کی پیداوار سب سے زیادہ ہوتی ہے تو اس لحاظ سے فصلوں کی باقیات میں آگ بھی سب سے زیادہ لگائی جاتی ہے۔

عام طور پر ، ایک ٹن فصل کی باقیات کو جلانے سے 60 کلو گرام کاربن مونو آکسائیڈ اور 1،400 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتے ہیں۔تین کلوگرام مائکرو ذرات، راکھ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ اضافی طور پر ماحول میں خارج ہوتے ہیں ۔سالانہ آدھی جلی فصلوں کا تعلق پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش سے ہوتا ہے، جو دہلی میں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن موسم سرما کے دوران یہ اثرات دو گناہ ہوجاتے ہیں۔

فصلوں کو جلانے سے زمین کی زرخیزی میں کمی واقع ہوتی ہے۔لاپرواہی سے فصلوں کو جلانے کی وجہ سے فائدہ مند بہت چھوٹی صنعت تباہ ہوجاتے ہیں۔زمین کے نمی تاثیر میں کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے۔حالانکہ نیشنل گرین ٹریبنول نے چار برس قبل فصلوں کے باقیات میں آگ لگانے کے خلاف ہدایت دی تھی لیکن کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔ماحولیاتی نظام میں ہورہی تباہیوں کے ساتھ پورے دنیا میں درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔جس میں سے فضائی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ملک بھر میں اموات میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے رپورٹ میں واضح طور پر بتایا کہ فضائی آلودگی سے ہر 8 میں سے ایک فرد کی موت واقع ہوتی ہے۔ایمس نے متنبہ کیا ہے کہ دہلی جیسے شہر میں پلمنوری اور قلبی امراض میں اضافہ ہوگا، جہاں صاف اور شفاف فضا کو نظرانداز کیا گیا ہے۔اے کیو آئی کے لیے 180 ممالک میں کیے گئے سروے کے مطابق بھارت کو اس زمرے میں آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔بھارت کی دو تہائی شہر گیس چیمبر میں تبدیل ہورہے ہیں۔

فصلوں کو جلانے کے بجائے دوسرے متبادل طریقے کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔روایتی توانائی نظام میں فصلوں کے باقیات کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے جلانے کے واقعات میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔جہاں ائیر کوالٹی کی حالت بری ہے وہاں کے کسانوں کو دھان اور گندم بجائے باجرا کی کھیتی کرنے کی طرف رجوع کروانا چاہیے۔دہلی میں گاڑیوں کے زہریلے دھوئیں کے اخراج کو روکنے کے لیے آڈ ایون جیسے پالیسیوں سے زیادہ موثر طریقوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دینا چاہیے۔زہریلا فضلا خارج کرنے والوں صنعت کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جانے چاہیے۔لوگوں کو آلودگی کے مضر اثرات کے بارے میں بیدار کرنا چاہیے۔آسٹریلیا، بارباڈوس اور کینیڈا جیسے ممالک میں اے کیو آئی بہترین ہے۔بھارت کو بھی ایسے ممالک کی برتری پر عمل پیرا ہونےکی ضرورت ہے اور اسے نافذ کرنے کے لیے ضرورتی اقدامات اٹھانا چاہیے۔

انسانوں کا قدرتی وسائل کے استعمال کو لےکر لاپرواہی کی وجہ سے ماحولیات کو شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔153 ممالک اور 11،258 سائنس دانوں پر مشتمل ایک بین الاقوامی کمیٹی نے ماحولیاتی ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے۔غیر موسمی بارش، سیلاب، قحط سالی، زلزلہ،سونامی، عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، گلیشئر کا تیزی سے پگھلنا، سمندری سطح کا بڑھنا ماحولیات کو شدید متاثر کررہا ہے جو مستقبل میں مشکلات کا باعث بنیں گی۔

صنعت کاری، شہرکاری، ترقی اور جنگلات کی کٹائی کے آڑ میں ہم قدرتی نظام کے توازن کو درہم برہم کررہیں ہیں۔انسانی تہذیب کے ابتدائی دور میں انسان شکار کرنے کا عادی تھا اور انسان نے انسانی زندگی کی ترقی کے دوران قدرت کو اپنی ضروریات کے مطابق تباہ و برباد کرنا شروع کردیا ۔ماحولیات میں گرین ہاؤس گیس کے اخراج کے سبب کھانا، پانی اور ہوا کو آلودہ کررہا ہے۔

دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی
دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی
دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی
دہلی میں فضائی آلودگی کا انتہائی خراب ہونا خطرے کی گھنٹی

دہلی اور اس کے اطراف میں فضائی آلودگی (اے کیو آئی) کا حد سے زیادہ خراب ہونا خطرے کی گھنٹی ہے۔جہاں اس صورتحال کو بدتر بنانے میں جغرافیائی حالات نے چھوٹا کردار ادا کیا ہے وہیں ماحولیاتی نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے انسانوں نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، دہلی میں دیوالی کے وقت آتش بازی کرنا اور فصلوں کی باقیات کو آگ لگانے کی وجہ سے اے کیو آئی 500 پوائنٹ تک پہنچ گئی جو ایک آلارم کی گھنٹی ہے۔

اگر اے کیو آئی 400 سے 500 کے درمیان پہنچ جاتا ہے تو یہ ماحولیاتی نظام کے لیے تشویشناک سمجھا جاتا ہے۔پولیوشن کنٹرول بورڈ نے بتایا کہ اے کیو آئی کی 500 سے زیادہ پہنچنا نقصاندہ ہے۔ دہلی میں ائیر کوالٹی کی ابتر حالت سے روزمرہ زندگی بری طریقے سے متاثر ہورہی ہے۔لوگ بغیر ماسک لگائے گھر سے باہر نکلنے سے پرہیز کررہیں جو دہلی کے ابتر صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔صرف دہلی نہیں بلکہ گروگرام، غازی آباد، نوئیڈا، فرید آباد بھی فضائی آلودگی کے زد میں ہیں۔

مہاراشٹر، اڈیشہ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کچھ ایسی ریاستیں ہیں جو زہریلے اخراج سے متاثر ہیں۔موسمیاتی تبدیلی نے اس صورتحال کو بد سے بدتر کردیا ہے۔سردی میں ہونے والی دھند کے ساتھ ساتھ گاڑیوں صنعت اور کھیت سے نکالنے والے زہریلے دھوئیں لوگوں کا دم گھونٹ رہیں ہیں۔دہلی کی پڑوسی ریاستیں پنجاب اور ہریانہ زرعی طور پر ترقی یافتہ ہیں اور ان دو ریاستوں میں فصلوں کی پیداوار سب سے زیادہ ہوتی ہے تو اس لحاظ سے فصلوں کی باقیات میں آگ بھی سب سے زیادہ لگائی جاتی ہے۔

عام طور پر ، ایک ٹن فصل کی باقیات کو جلانے سے 60 کلو گرام کاربن مونو آکسائیڈ اور 1،400 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتے ہیں۔تین کلوگرام مائکرو ذرات، راکھ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ اضافی طور پر ماحول میں خارج ہوتے ہیں ۔سالانہ آدھی جلی فصلوں کا تعلق پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش سے ہوتا ہے، جو دہلی میں منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن موسم سرما کے دوران یہ اثرات دو گناہ ہوجاتے ہیں۔

فصلوں کو جلانے سے زمین کی زرخیزی میں کمی واقع ہوتی ہے۔لاپرواہی سے فصلوں کو جلانے کی وجہ سے فائدہ مند بہت چھوٹی صنعت تباہ ہوجاتے ہیں۔زمین کے نمی تاثیر میں کمی آرہی ہے جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں کمی واقع ہورہی ہے۔حالانکہ نیشنل گرین ٹریبنول نے چار برس قبل فصلوں کے باقیات میں آگ لگانے کے خلاف ہدایت دی تھی لیکن کسی نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔ماحولیاتی نظام میں ہورہی تباہیوں کے ساتھ پورے دنیا میں درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے۔جس میں سے فضائی آلودگی میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے ملک بھر میں اموات میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے رپورٹ میں واضح طور پر بتایا کہ فضائی آلودگی سے ہر 8 میں سے ایک فرد کی موت واقع ہوتی ہے۔ایمس نے متنبہ کیا ہے کہ دہلی جیسے شہر میں پلمنوری اور قلبی امراض میں اضافہ ہوگا، جہاں صاف اور شفاف فضا کو نظرانداز کیا گیا ہے۔اے کیو آئی کے لیے 180 ممالک میں کیے گئے سروے کے مطابق بھارت کو اس زمرے میں آخری نمبر پر رکھا گیا ہے۔بھارت کی دو تہائی شہر گیس چیمبر میں تبدیل ہورہے ہیں۔

فصلوں کو جلانے کے بجائے دوسرے متبادل طریقے کو نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔روایتی توانائی نظام میں فصلوں کے باقیات کو ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے جس سے جلانے کے واقعات میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔جہاں ائیر کوالٹی کی حالت بری ہے وہاں کے کسانوں کو دھان اور گندم بجائے باجرا کی کھیتی کرنے کی طرف رجوع کروانا چاہیے۔دہلی میں گاڑیوں کے زہریلے دھوئیں کے اخراج کو روکنے کے لیے آڈ ایون جیسے پالیسیوں سے زیادہ موثر طریقوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے ہمیں پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دینا چاہیے۔زہریلا فضلا خارج کرنے والوں صنعت کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جانے چاہیے۔لوگوں کو آلودگی کے مضر اثرات کے بارے میں بیدار کرنا چاہیے۔آسٹریلیا، بارباڈوس اور کینیڈا جیسے ممالک میں اے کیو آئی بہترین ہے۔بھارت کو بھی ایسے ممالک کی برتری پر عمل پیرا ہونےکی ضرورت ہے اور اسے نافذ کرنے کے لیے ضرورتی اقدامات اٹھانا چاہیے۔

Intro:Body:

18 nov


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.