قومی دارالحکومت دہلی کے شمال مشرقی خطے میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے الزام میں مختلف سماجی کارکنان کو دہلی پولیس نے گرفتار کیا ہے جس میں سابق کونسلر عشرت جہاں کا نام بھی شامل ہے۔
گذشتہ روز یہ خبر آئی کہ سابق کونسلر عشرت جہاں کو پولیس کسٹڈی میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کے ساتھ اس قدر مار پیٹ کی گئی وہ بے حال ہوگئیں اور ان کے کپڑے تک پھاڑ دیے گیے۔
یہ بھی پڑھیں: 'بالغ افراد کو شادی اور مذہب تبدیل کرنے کی پوری آزادی ہے'
ایسی صورتحال سے صرف عشرت جہاں ہی نہیں گزریں بلکہ ان سے پہلے خالد سیفی کو بھی پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا، جس کی اطلاع بعد میں ان کی تصاویر وائرل ہونے سے ملی تھی، جس میں وہ ایک ویل چیئر پر عدالت میں پیش ہوئے تھے، آصف اقبال تنہا کے وکیل نے بھی اس بات کی شکایت کی تھی کہ ان کے مؤکل کو بھی زدوکوب کیا جا رہا ہے۔
اسی سلسلے میں ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد سے بات چیت کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ تمام کارروائی حکومت کے اشارے پر کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سنگھو بارڈر سے: حکومت کے مکتوب پر کسان تنظیموں کا تفصیلی جواب
ان کا کہنا ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ جتنے بھی سماجی کارکنان شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، ان کے ذہن میں خوف پیدا ہو جائے تاکہ وہ دوبارہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مخالفت نہ کر سکیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مشاورت آئین کو بچانے اور ملک کو متحد کرنے کی جنگ لڑ رہا ہے، جبکہ حکومت بھارت کو بانٹنے اور عوام کو تقسیم کرنے کا کام کر رہی ہے، اسی لیے ہم آخر تک اس جنگ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔
اس کے علاوہ بہت سے ایسی باتیں ہیں جو مشاورت کے صدر نے ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے کہیں۔ مزید تفصیلات کے لیے ویڈیو دیکھیں۔۔۔۔۔