غالب کی فارسی شاعری کا وہ پایہ تو نہیں جو ان کی اردو شاعری کا ہے۔ لیکن یہ اپنی نوعیت کا منفرد کلام ہے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم غالب کے فارسی کلام پر بھی خاطر خواہ توجہ دیں۔ ان خیالات کا اظہار غالب انسٹی ٹیوٹ میں دوسرا آن لائن غالب توسیعی خطبہ کے دوران معروف ادیب ومحقق ڈاکٹر تقی عابدی نے کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ کا شکر گزار ہوں اور اسے مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اس نے اس موضوع کی اہمیت کو سمجھا اور اس پر خطے کا انعقاد کیا۔
انہوں نے کہا کہ غالب کو اپنی فارسی پر ناز تھا اور وہ فارسی خطوط بڑے اہتمام سے لکھتے تھے۔ انہوں نے فارسی میں بڑی کامیاب مثنویاں کہیں جن میں ’چراغ دیر‘ اور ’سرمۂ بینش‘ سب سے زیادہ مشہور ہوئیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ بلند ترین فنی معیار کو پہنچتی ہیں۔
ان کے فارسی کلام میں معنی آفرینی کے ایسے نمونے پنہاں ہیں جن کی مثال آسانی سے دستیاب نہیں ہوسکتی۔
خطبے کی صدارت غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کی۔
صدارتی کلمات ادا کرتے ہوئے پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہا کہ اگرچہ موضوع بڑاوسیع تھا لیکن ڈاکٹر تقی عابدی کا علمی تجربہ ایسا ہے کہ انہوں نے غالب کے فارسی کلام کے مختلف پہلوؤں پر معنی خیز گفتگو کی۔
غالب کے فارسی آثار پر بھی اگرچہ خاصی گفتگو کی جاچکی ہے لیکن ابھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خاطر خواہ مواد سامنے نہیں آسکا۔
غالب انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ادریس احمد نے کہا کہ ڈاکٹر تقی عابدی ہمارے عہد کے ممتاز ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کلاسیکی شعر پر خصوصی جو کام کیا ہے اس سے ادبی دنیا بخوبی واقف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مرزا غالب کے نام پر انگریزی شراب کے بازار میں آنے پر اردو شعراء کا رد عمل
انہوں نے کلیات غالب فارسی کو بڑی محنت اور تحقیق تقاضوں کے ساتھ مرتب کیا ہے۔
آج کےتوسیعی خطبے بعنوان’’دور حاضر میں غالب کے فارسی کلام کی معنویت‘ اہمیت اور آفادیت کے موضوع پر جس عالمانہ انداز میں گفتگو کی وہ انہیں کا حصہ ہے۔ زوم اور غلام انسٹی ٹیوٹ کے فیس بک پیج پر کثیر تعداد میں لوگوں نے اس پروگرام میں شرکت کی۔