انہوں نے اپنی تحریکات میں ان دونوں اقدار کے ذریعہ مخالفین کے دل جیتے ہیں۔
ہمارے آس پاس ایسی کی تنظیمیں اور ممالک ہیں جو اپنے مشن کو پورا کرنے کےلیے تشدد اور جنگ کا راستہ اپناتے ہیں لیکن بالآخر اپنے مسائل کو حل کرنے کےلیے بات چیت اور جمہوریت پر مبنی طریقہ کار کو اپنانا پڑتا ہے۔
ناگا نیشنل کونسل اور نیشنل سوشلسٹ آف ناگالینڈ نے بھارتی حکومت کے مصالحت میں ناکامی کے بعد علحدگی کی تحریک شروع کی تھی اور اس سلسلہ میں ناگا فیڈرل گورنمنٹ اور ناگا فیڈرل آرمی کو بھی وجود میں لایا تھا جبکہ ناگا اور بھارتی حکومت کے بیچ پرتشدد واقعات بھی پیش آئے تھے۔
یہاں تک کہ این ایس سی این رہنماؤں نے بھارتی رہنماؤں سے بھارت کی سرزمین پر ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا جبکہ یہ ملاقاتیں یورپ اور جنوبی ایشیائی ممالک میں ہوا کرتی تھیں۔
اگرچہ یہ معاملہ ابھی بھی حل طلب ہے لیکن ناگا قیادت نے بھارت کے ساتھ پرامن بقا باہمی کے تصور پر راضی ہوگئی۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر کوریا دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور ان دونوں ملکوں کے بیچ 53-1950 کے درمیان جنگ بھی ہوئی۔
شمالی کوریا کو سویت یونین جبکہ جنوبی کوریا کو امریکہ کی تائید حاصل تھی۔
شمالی کوریا کی جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ بھی بہت دنوں دن دشمنی جاری رہی۔ شمالی کوریا نے عدم پھیلاؤ معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جوہری ہتھیار تیار کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس سلسلہ میں اس نے کئی قسم کے مزائیل تجربات
بھی کئے تھے جس کی وجہ سے علاقہ میں حالات تشویشناک ہوجاتے تھے۔
بالآخر تینوں ممالک نے بات چیت کے ذریعہ اپنے مسائل کو حل کرنے کا فیصلہ کیا اور جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے کے سلسلہ میں آمادگی کا اظہار کیا۔
بھارت اور پاکستان نے بھی متعدد مرتبہ مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی بات کہی ہے۔
بھارت میں نکسلزم جمہوریت کے خلاف جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں وہیں نیپال میں کمیونسٹ پارٹی نے خانہ جنگی کو ختم کرتے ہوئے امن معاہدہ پر رضامند ہوئی ہے اور اس تنظیم کے رہنما پراچندا دو بار ملک کے وزیراعظم کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔
چنانچہ گذشتہ سال گاندھائی اصولوں کو اپناتے ہوئے تقریباً 40 ہزار کسانوں نے اپنے مطالبات کی یکسوئی کےلیے 180 کیلومیٹر طویل پرامن ریلی نکالی تھی۔
اسی طرح ملک میں ایسی کئی تنظیمیں موجود ہیں جو گاندھی جی کے بتائے ہوئے راستوں کو اپناتے ہوئے اپنے مسائل کو حل کروانے کےلیے بھوک ہڑتال اور پرامن دھرنوں کا سہارا لیتی ہیں۔
حکام کی توجہ مبذول کروانے کےلیے احتجاجی مظاہروں کو جمہوری سماج میں جائز مانا جاتا ہے۔
عدم تشدد اور سچائی کے اصولوں پر مبنی جمہوریت میں اختلاف رائے کو معاشرے کا اہم حصہ مانا جاتا ہے جبکہ مختلف رائے کو جمہوریت کا لازمی جز بھی کہا جاسکتا ہے۔