جب آزادی کے وقت ملک تقسیم ہو رہا تھا تو دہلی کے نزدیک میو قوم کا ایک بڑا حصہ آباد تھا جو آس پاس کی ریاستوں کو ہمیشہ کھٹکتا رہتا تھا۔ میو مسلمانوں کو ہر حال میں پاکستان بھیجنے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ اس دور کے عینی شاہد گھاسیڑا گاؤں کے رہنے والے 93 سالہ بتّن میاں نے اپنی لرزتی زبان میں ای ٹی وی بھارت کو بتایا۔
بتّن نے بتایا کہ میوات کے لوگوں کو اس وقت اپنی سر زمین پر رہنے کے لئے مامور بٹالین کو پیسے تک دینے پڑے۔ (جب گاندھی گھاسیڑا آئے تھے تب بتن کی عمر 18 سال کے قریب تھی۔)
سنہ 1947 کے وقت چاروں طرف فسادات ہو رہے تھے ان فسادات سے میوات بھی اچھوتا نہیں تھا۔ میوات کے لوگ پاکستان جانا نہیں چاہتے تھے لیکن حالات نقل مکانی پر مجبور کر رہے تھے۔ پھر 19 دسمبر 1947 کو مہاتما گاندھی میوات کے گاندھی گرام کے نام سے مشہور گھاسیڑا آئے اور یہاں پر میواتیوں کے ہجوم کو خطاب کیا۔
گاندھی کے ساتھ پنجاب کے وزیر اعلی گوپی چند بھارگو، مولانا ابوالکلام آزاد سمیت کئی بڑے رہنما پہنچے تھے۔ مہاتما گاندھی نے ہی میوات کے لوگوں کو پاکستان جانے سے روکا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ میو بھارت کی ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے انہیں ان کے گھر سے زبردستی نہیں نکالا جا سکتا۔
مہاتما گاندھی نے چمپارن، بہار میں 13 ستمبر 1936 کو کہا تھا کہ میؤ جیسی بہادری اگر دوسری قوموں میں ہو تو 24 گھنٹے میں ملک آزاد کروا لوں گا۔ انہوں نے اس وقت کی پنجاب حکومت اور بھارتی حکومت سےکہا تھا کہ میوات کے مسلمانوں کی جان مال کی حفاظت کی ذمہ داری سرکار لے۔ ان کا یہاں سے چلے جانا ہندوستان کو ختم کر دے گا۔ اسی لئے میوات کو مہاتما گاندھی کی وراثت مانا جاتا ہے۔
اور یہی وجہ ہے کہ میوات کے لوگ گاندھی کی وراثت کو آگے بڑھانے اور ان کے زریں اصولوں کو فروغ دینے میں ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں۔
میوات کے مؤرخ صدیق احمد میو کہتے ہیں کہ گاندھی جی کے قتل کے بعد میوات کے لوگ بہت مایوس ہو گئے تھے۔ میوات کے لوگ مہاتما گاندھی کو اپنا سب سے بڑا محسن مانتے ہیں۔
گھاسیڑا گاؤں کے رہنے والے مولانا شیر محمد امینی کہتے ہیں کہ گھاسیڑا تاریخی گاؤں تھا اور مہاتما گاندھی سے اس کا گہرا تعلق ہے اس لیے اس گاؤں میں ان کے نام سے ایک لائبریری ہونی چاہیے۔ جس میں تمام مذاہب اور ادیان کی کتابیں ہوں تاکہ باہمی رواداری کو فروغ ملے۔