ETV Bharat / state

دہلی کے جامعہ میں پہلا حراستی سینٹربن کرتیار - طلبا کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ جاری

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں طلبا کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ گزشتہ کئی روز سے جاری ہے، لیکن اس مظاہرے کے درمیان بڑی بات یہ ہے کہ وہاں ایک حراستی کیمپ یعنی کہ ڈٹینشن کیمپ کھولا گیا۔

دہلی کے جامعہ میں پہلا حراستی سینٹربن کرتیار
دہلی کے جامعہ میں پہلا حراستی سینٹربن کرتیار
author img

By

Published : Jan 10, 2020, 1:16 PM IST

دارالحکومت دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ گذشتہ 28 روز سے جاری احتجاج کے درمیان اب وہاں حراستی کیمپ کھولنے کا معاملہ سامنے آیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ شمالی بھارت کا پہلا حراستی کیمپ ہے۔

دہلی کے جامعہ میں پہلا حراستی سینٹربن کرتیار

مزید پڑھیں: سرائے روہیلہ میں واقع جھگیوں میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا

کیوں کھلا جامعہ میں حراستی کیمپ؟

اگر آپ جامعہ یونیورسٹی میں حراستی کیمپ کھولے جانے کی خبر سن کر اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ حکومت کی جانب سے کھولا گیا ہے تو آپ غلط ہیں، کیونکہ یہ حراستی مرکز طلباء نے خود کھولا ہے۔ جسے حراستی کیمپ بھی کہا جا رہا ہے۔

اس میں قید طلبا سی اے اے، این آر سی اور این آر پی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

'شہریت ترمیمی قانون واپس لینے کا مطالبہ'
حراستی کیمپ میں موجود پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ سی اے اے قانون آئین کے خلاف ہے۔ پی ایم مودی اور امیت شاہ ملک کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ہم توڑنے نہیں دیں گے، اس لیے ہم حراسٹی کیمپ کے اندر رہ کر احتجاج کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ 15 دسمبر 2019 سے جامعہ اور شاہین باغ میں مسلسل احتجاج ہورہے ہیں۔

شمالی بھارت کا پہلا ڈینٹیشن کیمپ!
اگرچہ یہ حراستی مرکز طلباء نے احتجاج کے لئے تعمیر کیا ہے، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ شمالی بھارت کا پہلا حراستی مرکز ہے، کیونکہ اس سے قبل آسام میں بہت سے حراستی مراکز کھل چکے ہیں، جو حکومت نے تعمیر کروائے ہیں۔

حالانکہ گزشتہ روز پی ایم مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں ایک بھی حراستی مرکز نہیں ہے۔

دارالحکومت دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ گذشتہ 28 روز سے جاری احتجاج کے درمیان اب وہاں حراستی کیمپ کھولنے کا معاملہ سامنے آیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ شمالی بھارت کا پہلا حراستی کیمپ ہے۔

دہلی کے جامعہ میں پہلا حراستی سینٹربن کرتیار

مزید پڑھیں: سرائے روہیلہ میں واقع جھگیوں میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا

کیوں کھلا جامعہ میں حراستی کیمپ؟

اگر آپ جامعہ یونیورسٹی میں حراستی کیمپ کھولے جانے کی خبر سن کر اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ حکومت کی جانب سے کھولا گیا ہے تو آپ غلط ہیں، کیونکہ یہ حراستی مرکز طلباء نے خود کھولا ہے۔ جسے حراستی کیمپ بھی کہا جا رہا ہے۔

اس میں قید طلبا سی اے اے، این آر سی اور این آر پی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔

'شہریت ترمیمی قانون واپس لینے کا مطالبہ'
حراستی کیمپ میں موجود پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ سی اے اے قانون آئین کے خلاف ہے۔ پی ایم مودی اور امیت شاہ ملک کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ہم توڑنے نہیں دیں گے، اس لیے ہم حراسٹی کیمپ کے اندر رہ کر احتجاج کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ 15 دسمبر 2019 سے جامعہ اور شاہین باغ میں مسلسل احتجاج ہورہے ہیں۔

شمالی بھارت کا پہلا ڈینٹیشن کیمپ!
اگرچہ یہ حراستی مرکز طلباء نے احتجاج کے لئے تعمیر کیا ہے، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ شمالی بھارت کا پہلا حراستی مرکز ہے، کیونکہ اس سے قبل آسام میں بہت سے حراستی مراکز کھل چکے ہیں، جو حکومت نے تعمیر کروائے ہیں۔

حالانکہ گزشتہ روز پی ایم مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں ایک بھی حراستی مرکز نہیں ہے۔

Intro:नई दिल्ली। जामिया पर CAA और NCR के खिलाफ अब छात्र नये- नये तरीके से प्रदर्शन कर अपना विरोध जता रहे हैं। यहां जामिया के छात्रों ने विरोध प्रदर्शन के बीच एक डिटेंशन सेंटर नाम से एक हिरासत केंद्र बनाया है। जिसके अंदर छात्र खुद को कैद कर विरोध जता रहे हैं।Body:दरअसल पिछले 28 दिनों से चल रहे प्रदर्शन के बीच जामिया और वहां के आम लोग CAA और NRC के विरोध करने के में बैठे हैं । और विरोध के नये तरीकों से लगातार बदलाव कर सरकार को बराबर मेसेज दे रहें हें कि चाहे जो हो ये प्रदर्शन चलता रहेगा । अब छात्रों ने यहां एक डिंटेशन सेंटर का निर्माण कर दिया है जिसका नाम हिरासत केंद्र दिया है। इस हिरासत केंद्र को सरकार द्रवारा बनाये जाने वाले डिटेंशन सेंटर पर जिस तरह लोगों को कैद किया जाएगा उसका एक उदाहरण पएश कर ये छात्र उसके खिलाफ विरोध कर रहे हैं।
छात्रों ने कहा वापस लिया जाए बिल
छ3त्रों के बनाये डिटेंशन सेंटर में मौजूद एक पीएचडी छात्र ने बताया कि ये संविधान के खिलाफ बिल है इस तरह मोदी जी और अमित शाह देश बढ़ाने का काम नहीं बल्कि ये देश को तोड़ने का काम करहे हैं। उव्होंने आगे कहा कि चाहे जो हो हम विरोध करेंगे और डिटेंशन संटर अंदर मौजूद रह कर उन्होने कहा कि ये डिटेंशन सेंटर किसी एक मजहब के लिये नहीं हे इसमें हिंदु, मुस्लिम, सिख और इसाई तमाम लोग जाएंगे ये कानून के खिलाफ हम सब एक साथ विरोध में हैं । ये कानून लोगों को तोड़ने का काम कर रहा है। हम शांतिपूर्ण तरीके से ही सरकार को बिल वापस करने के लिये विरोध जता रहे हैं और आगे भी ये प्रदर्शन चलता रहेगा।Conclusion:आपको बता दें कि औखला में जामिया और शाइन बाग में 15 दिसंबर से लगातार प्रोटेस्ट चल रहा है और यहां जामिया छात्र ही महीं बल्कि बड़ी संख्या में दूर - दूक से लोग आकर इस प्रदर्शन में हिस्सा ले रहे हैं। और मंच से या हाथों में पोस्टर बैनर लिये अपना विरोध व्यक्त कर रहे हैं।
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.