دارالحکومت دہلی میں واقع جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ گذشتہ 28 روز سے جاری احتجاج کے درمیان اب وہاں حراستی کیمپ کھولنے کا معاملہ سامنے آیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ شمالی بھارت کا پہلا حراستی کیمپ ہے۔
مزید پڑھیں: سرائے روہیلہ میں واقع جھگیوں میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا
کیوں کھلا جامعہ میں حراستی کیمپ؟
اگر آپ جامعہ یونیورسٹی میں حراستی کیمپ کھولے جانے کی خبر سن کر اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ حکومت کی جانب سے کھولا گیا ہے تو آپ غلط ہیں، کیونکہ یہ حراستی مرکز طلباء نے خود کھولا ہے۔ جسے حراستی کیمپ بھی کہا جا رہا ہے۔
اس میں قید طلبا سی اے اے، این آر سی اور این آر پی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
'شہریت ترمیمی قانون واپس لینے کا مطالبہ'
حراستی کیمپ میں موجود پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ سی اے اے قانون آئین کے خلاف ہے۔ پی ایم مودی اور امیت شاہ ملک کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ہم توڑنے نہیں دیں گے، اس لیے ہم حراسٹی کیمپ کے اندر رہ کر احتجاج کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ 15 دسمبر 2019 سے جامعہ اور شاہین باغ میں مسلسل احتجاج ہورہے ہیں۔
شمالی بھارت کا پہلا ڈینٹیشن کیمپ!
اگرچہ یہ حراستی مرکز طلباء نے احتجاج کے لئے تعمیر کیا ہے، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ شمالی بھارت کا پہلا حراستی مرکز ہے، کیونکہ اس سے قبل آسام میں بہت سے حراستی مراکز کھل چکے ہیں، جو حکومت نے تعمیر کروائے ہیں۔
حالانکہ گزشتہ روز پی ایم مودی نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ملک میں ایک بھی حراستی مرکز نہیں ہے۔