ETV Bharat / state

'اے پی ایم سی کے باہر پیداوار فروخت کرنے سے کاشتکاروں کو فائدہ'

پنجاب، ہریانہ اور ملک کے دیگر حصوں میں زرعی بلوں کی مخالفت کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے 'من کی بات' میں کہا کہ زرعی پیداوار مارکیٹنگ کمیٹی منڈی سے باہر اپنی فصلیں فروخت کرنے پر کسانوں کو فائدہ ہو رہا ہے اور وہ لاکھوں روپے کی آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔

farmers playing major role in aatmanirbhar bharat, says prime minister narendra modi
اے پی ایم سی کے باہر پیداوار فروخت کرنے سے کاشتکاروں کو فائدہ
author img

By

Published : Sep 27, 2020, 4:50 PM IST

وزیر اعظم نریندر مودی نے آکاشوانی پر اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام 'من کی بات' میں ملک کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے اس دور میں ملک کے زرعی شعبے نے ایک بار پھر طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اے پی ایم سی کے باہر پیداوار فروخت کرنے سے کاشتکاروں کو فائدہ

ملک کا زرعی شعبہ، کاشتکار، گاؤں، خود کفیل بھارت کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ مضبوط ہوں گے تو پھر خود کفیل بھارت کی بنیاد مضبوط ہوگی۔

ماضی قریب میں ان شعبوں نے خود کو بہت سی پابندیوں سے آزاد کیا ہے اور کئی غلط تصورات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

مسٹر مودی نے ہریانہ کے سونی پت کے کسان کنور چوہان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں منڈی کے باہر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرنے میں دشواری پیش آتی تھی۔ اگر وہ بازار سے باہر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرتے تھے تو کئی بار اس کے پھل، سبزیاں اور گاڑیاں ضبط ہوجاتی تھیں۔ لیکن سنہ 2014 میں پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی قانون سے باہر کر دیا گیا جس سے انہیں اور اس کے آس پاس کے ساتھی کسان کو فائدہ ہوا۔ چار برس پہلے انہوں نے اپنے گاؤں میں ساتھی کسانوں کے ساتھ مل کر ایک کسان پروڈیوسر گروپ تشکیل دیا تھا۔

farmers playing major role in aatmanirbhar bharat, says prime minister narendra modi
اے پی ایم سی کے باہر پیداوار فروخت کرنے سے کاشتکاروں کو فائدہ

آج گاؤں کے کسان سوئٹ کارن اور بیبی کارن کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کی مصنوعات آج براہ راست دہلی کی آزاد پور منڈی، بڑی دکانوں اور ہوٹلوں میں جا رہی ہیں۔

آج گاؤں کے کسان اپنی کاشت سے سالانہ ڈھائی سے تین لاکھ فی ایکڑ کمائی کر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، اسی گاؤں کے 60 سے زیادہ کاشتکار نیٹ ہاؤس اور پالی ہاؤس بناکر ٹماٹر، ککڑی، شملہ مرچ، اس کی مختلف اقسام تیار کرکے ہر برس فی ایکڑ 10 سے 12 لاکھ روپے آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان کاشت کاروں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے پھل اور سبزیاں کہیں بھی کسی کو بھی فروخت کر سکتے ہیں اور یہی طاقت ہی ان کی ترقی کی بنیاد ہے۔ اب ملک کے دوسرے کسانوں کو بھی وہی طاقت ملی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے لیے ہی نہیں اپنے کھیتوں میں وہ جو پیداوار کر رہے ہیں۔ وہ دھان، گندم، سرسوں، گنے، جو پیدا کر رہے ہیں، ان کی خواہش کے مطابق، جہاں انہیں زیادہ قیمت ملے وہیں فروخت کرنے کی اب انہیں آزادی ملی ہے۔

مسٹر مودی نے کہا کہ تین چار برس پہلے مہاراشٹر میں پھل اور سبزیوں کو اے پی ایم سی قانون کے دائرے سے باہر کیا گیا تھا۔ اس تبدیلی نے مہاراشٹر کے پھل اور سبزی کاشت کرنے والے کسانوں کی حالت بدل دی ہے۔

پونہ اور ممبئی میں کسان ہفتہ وار بازار خود چلا رہے ہیں۔ ان بازاروں میں تقریباً 70 گاؤں کے ساڑھے چار ہزار کسانوں کی پیداوار راست فروخت کی جاتی ہے۔ کوئی بچولیا نہیں ہے، دیہی نوجوان، براہ راست بازار میں کاشتکاری اور فروخت کے عمل میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کا راست طور پر فائدہ کسانوں کو ہوتا ہے، گاؤں کے نوجوانوں کے روزگار میں ہوتا ہے۔

تمل ناڈو کے تھینی ضلع کے کیلا کسانوں نے مل کر اپنا ایک گروپ بنایا ہے۔ بڑا لچکدار نظام ہے اور وہ بھی پانچ چھ برس پہلے بنایا ہے۔ اس کسان گروپ نے لاک ڈاؤن کے دوران آس پاس کے گاؤں سے سیکڑوں ٹن سبزیاں، پھل اور کیلے خریدے اور چننئی میں فروخت کیے۔ نوجوانوں کو انہوں نے روزگار دیا اور بیچ میں کسی کو شامل نہیں کرنے کے سبب کسان کو بھی اور صارفین کو بھی فائدہ ہوا۔

لکھنٔو میں کسانوں کا ایک گروپ ہے۔ کسانوں کے کھیتوں سے راست طور پر پھل اور سبزیاں لیکر اور براہ راست لکھنو کے بازاروں میں فروخت کرتا ہے۔ بچولیوں سے آزادی مل گئی اور من چاہی قیمت انہوں نے حاصل کی۔

مسٹر مودی نے کہا کہ گجرات میں بناس کانٹھا کے رام پور گاؤں میں اسمعیل بھائی اک کسان ہیں۔ انہوں نے نئے طریقے سے کاشتکاری شروع کی۔ وہ اپنے کھی کے آلو، راست طور پر بڑی بڑی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں، بچولیوں کا نام و نشان نہیں اور نتیجے میں اچھا منافع کما رہے ہیں۔

منی پور کی رہنے والی وجے شانتی ایک نے طریقے سے کاشت کاری کرنے پر خوب سرخیوں میں ہیں۔ انہوں نے کمل کی نال سے دھاگہ بنانے کا اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔ اس کے سبب کمل کی کاشت اور کپڑا صنعت میں ایک نیا ہی راستہ کھل گیا ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں پارلیمنٹ میں زراعت سے متعلق دو بل منظور کیے گئے جن کی ملک کے کئی حصوں میں مخالفت ہو رہی ہے۔ ان بلوں کے التزامات کے مطابق کسان اپنی پیداوار ملک میں کہیں بھی فروخت کرسکتا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے آکاشوانی پر اپنے ماہانہ ریڈیو پروگرام 'من کی بات' میں ملک کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے اس دور میں ملک کے زرعی شعبے نے ایک بار پھر طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔

اے پی ایم سی کے باہر پیداوار فروخت کرنے سے کاشتکاروں کو فائدہ

ملک کا زرعی شعبہ، کاشتکار، گاؤں، خود کفیل بھارت کی بنیاد ہیں۔ اگر یہ مضبوط ہوں گے تو پھر خود کفیل بھارت کی بنیاد مضبوط ہوگی۔

ماضی قریب میں ان شعبوں نے خود کو بہت سی پابندیوں سے آزاد کیا ہے اور کئی غلط تصورات کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔

مسٹر مودی نے ہریانہ کے سونی پت کے کسان کنور چوہان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں منڈی کے باہر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرنے میں دشواری پیش آتی تھی۔ اگر وہ بازار سے باہر اپنے پھل اور سبزیاں فروخت کرتے تھے تو کئی بار اس کے پھل، سبزیاں اور گاڑیاں ضبط ہوجاتی تھیں۔ لیکن سنہ 2014 میں پھلوں اور سبزیوں کو اے پی ایم سی قانون سے باہر کر دیا گیا جس سے انہیں اور اس کے آس پاس کے ساتھی کسان کو فائدہ ہوا۔ چار برس پہلے انہوں نے اپنے گاؤں میں ساتھی کسانوں کے ساتھ مل کر ایک کسان پروڈیوسر گروپ تشکیل دیا تھا۔

farmers playing major role in aatmanirbhar bharat, says prime minister narendra modi
اے پی ایم سی کے باہر پیداوار فروخت کرنے سے کاشتکاروں کو فائدہ

آج گاؤں کے کسان سوئٹ کارن اور بیبی کارن کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کی مصنوعات آج براہ راست دہلی کی آزاد پور منڈی، بڑی دکانوں اور ہوٹلوں میں جا رہی ہیں۔

آج گاؤں کے کسان اپنی کاشت سے سالانہ ڈھائی سے تین لاکھ فی ایکڑ کمائی کر رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں، اسی گاؤں کے 60 سے زیادہ کاشتکار نیٹ ہاؤس اور پالی ہاؤس بناکر ٹماٹر، ککڑی، شملہ مرچ، اس کی مختلف اقسام تیار کرکے ہر برس فی ایکڑ 10 سے 12 لاکھ روپے آمدنی حاصل کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان کاشت کاروں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنے پھل اور سبزیاں کہیں بھی کسی کو بھی فروخت کر سکتے ہیں اور یہی طاقت ہی ان کی ترقی کی بنیاد ہے۔ اب ملک کے دوسرے کسانوں کو بھی وہی طاقت ملی ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کے لیے ہی نہیں اپنے کھیتوں میں وہ جو پیداوار کر رہے ہیں۔ وہ دھان، گندم، سرسوں، گنے، جو پیدا کر رہے ہیں، ان کی خواہش کے مطابق، جہاں انہیں زیادہ قیمت ملے وہیں فروخت کرنے کی اب انہیں آزادی ملی ہے۔

مسٹر مودی نے کہا کہ تین چار برس پہلے مہاراشٹر میں پھل اور سبزیوں کو اے پی ایم سی قانون کے دائرے سے باہر کیا گیا تھا۔ اس تبدیلی نے مہاراشٹر کے پھل اور سبزی کاشت کرنے والے کسانوں کی حالت بدل دی ہے۔

پونہ اور ممبئی میں کسان ہفتہ وار بازار خود چلا رہے ہیں۔ ان بازاروں میں تقریباً 70 گاؤں کے ساڑھے چار ہزار کسانوں کی پیداوار راست فروخت کی جاتی ہے۔ کوئی بچولیا نہیں ہے، دیہی نوجوان، براہ راست بازار میں کاشتکاری اور فروخت کے عمل میں شامل ہوتے ہیں۔ اس کا راست طور پر فائدہ کسانوں کو ہوتا ہے، گاؤں کے نوجوانوں کے روزگار میں ہوتا ہے۔

تمل ناڈو کے تھینی ضلع کے کیلا کسانوں نے مل کر اپنا ایک گروپ بنایا ہے۔ بڑا لچکدار نظام ہے اور وہ بھی پانچ چھ برس پہلے بنایا ہے۔ اس کسان گروپ نے لاک ڈاؤن کے دوران آس پاس کے گاؤں سے سیکڑوں ٹن سبزیاں، پھل اور کیلے خریدے اور چننئی میں فروخت کیے۔ نوجوانوں کو انہوں نے روزگار دیا اور بیچ میں کسی کو شامل نہیں کرنے کے سبب کسان کو بھی اور صارفین کو بھی فائدہ ہوا۔

لکھنٔو میں کسانوں کا ایک گروپ ہے۔ کسانوں کے کھیتوں سے راست طور پر پھل اور سبزیاں لیکر اور براہ راست لکھنو کے بازاروں میں فروخت کرتا ہے۔ بچولیوں سے آزادی مل گئی اور من چاہی قیمت انہوں نے حاصل کی۔

مسٹر مودی نے کہا کہ گجرات میں بناس کانٹھا کے رام پور گاؤں میں اسمعیل بھائی اک کسان ہیں۔ انہوں نے نئے طریقے سے کاشتکاری شروع کی۔ وہ اپنے کھی کے آلو، راست طور پر بڑی بڑی کمپنیوں کو فروخت کرتے ہیں، بچولیوں کا نام و نشان نہیں اور نتیجے میں اچھا منافع کما رہے ہیں۔

منی پور کی رہنے والی وجے شانتی ایک نے طریقے سے کاشت کاری کرنے پر خوب سرخیوں میں ہیں۔ انہوں نے کمل کی نال سے دھاگہ بنانے کا اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔ اس کے سبب کمل کی کاشت اور کپڑا صنعت میں ایک نیا ہی راستہ کھل گیا ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں پارلیمنٹ میں زراعت سے متعلق دو بل منظور کیے گئے جن کی ملک کے کئی حصوں میں مخالفت ہو رہی ہے۔ ان بلوں کے التزامات کے مطابق کسان اپنی پیداوار ملک میں کہیں بھی فروخت کرسکتا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.