لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) بی ایس جیسوال نے ایل اے سی پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1959 کی جنگ کے بعد چین نے پہلی بار قبضہ کئے گئے اور منحرف علاقوں کے درمیان ایل اے سی کھینچی تھی جبکہ بیجنگ وقتاً فوقتاً اس میں تبدیلی کا خواہاں رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کس طرح چین رینگتے رینگتے پٹرول پوائنٹ 14 تک پہنچ گیا اور گلوان وادی پر قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پی پی 14 کے قریب ان کا قبضہ کس طرح چین کےلیے فائدہ مند ہوگا۔
انہوں نے ایل اے سی کے قریب بھارتی فوجیوں پر حملہ کو انٹلی جنس کی ناکامی قرار دیا اور دشمن کی نقل و حرکت سے متعلق تمام فراہم کردہ رہنمائی کے باوجود 20 فوجیوں کی شہادت پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا۔
جنرل بی ایس جیسوال نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ ’انہوں نے (لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) بی ایس جیسوال) عہدہ پر فائز رہتے ہوئے یہاں اسٹینڈ آف کیمرہ نصب کرنے کا مطالبہ کیا تھا جسے اب تک پورا نہیں کیا گیا، اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟
ان کا ماننا ہے کہ 15 جون کو ہوئی جھڑپ میں زخمی فوجیوں کی حالت مستحکم ہونے کے بعد وزارت دفاع ان سے اس واقعہ کے بارے میں مزید جانکاری حاصل کریگی اور اس تفصیلات کو شیئر بھی کیا جاسکتا ہے۔
چینی حملہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بی ایس جیسوال نے کہا کہ اگر فوجیوں کو مناسب وقت ملتا تو حملے کا منہ توڑ جواب دیا جاسکتا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کمانڈنگ آفیسر نے اپنی ذمہ داری کو بہتر انداز میں نبھاتے ہوئے اسلحہ کے استعمال سے گریز کیا، اگر اس موقع پر ایک گولی بھی چل جاتی، تو دونوں ملکوں کے مابین جنگ شروع ہوسکتی تھی۔