ETV Bharat / state

اردو ڈرامہ فیسٹیول میں ڈرامہ غالب کے خط نے شائقین کو متاثر کیا

Drama Ghalib Letter۔ Drama Ghalib Ke Khat۔ Urdu Drama Festival۔ اردو اکادمی دہلی کے زیر اہتمام 33واں ڈرامہ فیسٹول منڈی ہاؤس کے سری رام سینٹر میں 'غالب کے خط' کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جس کے مصنف و ہدایت کار کی ذمہ داری ایم سعید عالم نے ادا کی جب کہ پیشکش پیرٹس ٹروپ کی جانب سے کی گئی۔

Drama Ghalib letter impressed the audience at the Urdu Drama Festival
Drama Ghalib Letter impressed the audience at the Urdu Drama Festival
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 16, 2024, 12:27 PM IST

نئی دہلی: دارالحکومت دہلی میں اردو ڈرامہ فیسٹیول اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ فیسٹیول میں ڈرامہ 'غالب کے خط نے شائقین کو متاثر کیا۔ اس سے پہلے پانچ کامیاب ڈرامے پیش کیے گئے تھے۔ جن میں 'تغلق'، 'سوہنی مہیوال'، ’انسان نکلتے ہیں'، 'جان غزل'،' ہائے رستم' اور 'غالب کے خط' پیش کیے گئے۔ اس ڈرامہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ان لوگوں کو نمایاں کیا گیا ہے جنہیں غالب خط لکھا کرتے تھے اور غالب کی بیوی امراؤ بیگم کی ذہانت اور مثبت کردار کو پیش کیا گیا ہے۔

اردو ڈرامہ فیسٹیول میں ڈرامہ غالب کے خط نے شائقین کو متاثر کیا
اردو ڈرامہ فیسٹیول میں ڈرامہ غالب کے خط نے شائقین کو متاثر کیا

یہ بھی پڑھیں:

آج اردو زبان کے نامور شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کا 226واں یوم پیدائش

اس فیسٹیول میں مرزا ہر گوپال تفتہ، منشی ہیرا سنگھ، درد دہلوی، منشی شیونارائن، رئیس لوہارو نواب علائی، غلام حسنین قدر بلگرامی، میر مہدی مجروح، نواب شفق، میاں مشکی، نواب یوسف مرزا، حاتم علی مہر، بابو ہر گوپال سہائے نشاط، سیاح داد خاں، منشی علی بخش، نواب غلام حسن، سرور نیپالی امراؤ بیگم اور خادمہ توتلی کے کردار پیش کیے گئے۔ سبھی کے کردار خطوط سے منسلک تھے۔ ہر کردار غالب کے لکھے خطوط کو پڑھتا اس پر امراؤ بیگم کا خوبصورت بیانیہ منظر نامہ کو واضح کر جاتا۔ خادمہ غالب کے کسی ممدوح کے متعلق سوال کرتی تو امراؤ بیگم کچھ مختصراً بیان کرتیں پھر وہ ممدوح غالب کے خط کے ساتھ حاضر ہو جاتے۔ اس طرح اس میں غالب کی بدحالی، اٹھارہ سو ستاون کی کہانی، انگریزوں کا ظلم، تعزیت کا ظریفانہ طرز سبھی کچھ ظاہر ہوجاتا۔

ڈرامہ میں ایم سعید کے برجستہ کلمات نے سبھی کو متحیر ومحظوظ کیا۔ قہقہے بھی بلند ہوئے اور شائقین ان کی زیرکی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے۔ آخر میں جب ہدایت کار ایم سعید عالم سے ڈرامہ کی خصوصیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اب تک غالب پر جتنے بھی ڈرامہ اور فلمیں بنی ہیں، سبھی میں غالب نمایاں طور پر نظر آتے ہیں لیکن اس میں غالب کی شخصیت کو سامنے نہ لاکر ان کے خطوط کے ذریعہ کھوئے ہوئے کرداروں کو زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو غالب کے ساتھ ہمیشہ منسلک رہے ہیں اور ان کی بیگم کو اکثر ڈرامہ نگاروں نے جس منفی رول میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس ڈرامہ میں مثبت طور پر پیش کیا گیا ہے۔

یہ ڈرامہ ڈیڑھ گھنٹے کا تھا، ڈرامہ کے اختتام پر سینئر اکاؤنٹ آفیسر کلبھوشن اروڑا نے گلدستہ پیش کرکے تخلیق کار و ہدایت کار ایم سعید کی تحسین کی۔ ناظرین سے ہال کے زیریں و بالائی دونوں حصے مکمل طور پر بھرے ہوئے تھے۔ ڈرامہ کے ناظرین سے معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا کہ اردو اکادمی دہلی کے اس ڈرامہ فیسٹول کا سبھی کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ اس سخت سردی کے باوجود ہاؤس فل کے بجائے اوور کراؤڈڈ تھے۔

نئی دہلی: دارالحکومت دہلی میں اردو ڈرامہ فیسٹیول اختتام پذیر ہوگیا ہے۔ فیسٹیول میں ڈرامہ 'غالب کے خط نے شائقین کو متاثر کیا۔ اس سے پہلے پانچ کامیاب ڈرامے پیش کیے گئے تھے۔ جن میں 'تغلق'، 'سوہنی مہیوال'، ’انسان نکلتے ہیں'، 'جان غزل'،' ہائے رستم' اور 'غالب کے خط' پیش کیے گئے۔ اس ڈرامہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ان لوگوں کو نمایاں کیا گیا ہے جنہیں غالب خط لکھا کرتے تھے اور غالب کی بیوی امراؤ بیگم کی ذہانت اور مثبت کردار کو پیش کیا گیا ہے۔

اردو ڈرامہ فیسٹیول میں ڈرامہ غالب کے خط نے شائقین کو متاثر کیا
اردو ڈرامہ فیسٹیول میں ڈرامہ غالب کے خط نے شائقین کو متاثر کیا

یہ بھی پڑھیں:

آج اردو زبان کے نامور شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کا 226واں یوم پیدائش

اس فیسٹیول میں مرزا ہر گوپال تفتہ، منشی ہیرا سنگھ، درد دہلوی، منشی شیونارائن، رئیس لوہارو نواب علائی، غلام حسنین قدر بلگرامی، میر مہدی مجروح، نواب شفق، میاں مشکی، نواب یوسف مرزا، حاتم علی مہر، بابو ہر گوپال سہائے نشاط، سیاح داد خاں، منشی علی بخش، نواب غلام حسن، سرور نیپالی امراؤ بیگم اور خادمہ توتلی کے کردار پیش کیے گئے۔ سبھی کے کردار خطوط سے منسلک تھے۔ ہر کردار غالب کے لکھے خطوط کو پڑھتا اس پر امراؤ بیگم کا خوبصورت بیانیہ منظر نامہ کو واضح کر جاتا۔ خادمہ غالب کے کسی ممدوح کے متعلق سوال کرتی تو امراؤ بیگم کچھ مختصراً بیان کرتیں پھر وہ ممدوح غالب کے خط کے ساتھ حاضر ہو جاتے۔ اس طرح اس میں غالب کی بدحالی، اٹھارہ سو ستاون کی کہانی، انگریزوں کا ظلم، تعزیت کا ظریفانہ طرز سبھی کچھ ظاہر ہوجاتا۔

ڈرامہ میں ایم سعید کے برجستہ کلمات نے سبھی کو متحیر ومحظوظ کیا۔ قہقہے بھی بلند ہوئے اور شائقین ان کی زیرکی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکے۔ آخر میں جب ہدایت کار ایم سعید عالم سے ڈرامہ کی خصوصیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اب تک غالب پر جتنے بھی ڈرامہ اور فلمیں بنی ہیں، سبھی میں غالب نمایاں طور پر نظر آتے ہیں لیکن اس میں غالب کی شخصیت کو سامنے نہ لاکر ان کے خطوط کے ذریعہ کھوئے ہوئے کرداروں کو زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو غالب کے ساتھ ہمیشہ منسلک رہے ہیں اور ان کی بیگم کو اکثر ڈرامہ نگاروں نے جس منفی رول میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس ڈرامہ میں مثبت طور پر پیش کیا گیا ہے۔

یہ ڈرامہ ڈیڑھ گھنٹے کا تھا، ڈرامہ کے اختتام پر سینئر اکاؤنٹ آفیسر کلبھوشن اروڑا نے گلدستہ پیش کرکے تخلیق کار و ہدایت کار ایم سعید کی تحسین کی۔ ناظرین سے ہال کے زیریں و بالائی دونوں حصے مکمل طور پر بھرے ہوئے تھے۔ ڈرامہ کے ناظرین سے معلوم کرنے پر انہوں نے بتایا کہ اردو اکادمی دہلی کے اس ڈرامہ فیسٹول کا سبھی کو بے صبری سے انتظار رہتا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ اس سخت سردی کے باوجود ہاؤس فل کے بجائے اوور کراؤڈڈ تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.