ETV Bharat / state

Khula Cases rises Among Muslim Women آخرکیوں مسلم خواتین خلع کا راستہ اختیارکررہی ہیں؟

دارالحکومت دہلی میں طلاق کے زیادہ ترکیسز خلع کے طریقے کار سے دائرکئے جارہے ہیں۔ مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد خلع کے راستے کے ذریعہ علیحدگی کا راستہ اخیتار کررہیں ہیں ۔Khula Cases rises Among Muslim Women

آخر کیوں مسلم خواتین خلع کا راستہ اختیارکررہی ہیں؟
آخر کیوں مسلم خواتین خلع کا راستہ اختیارکررہی ہیں؟
author img

By

Published : Sep 6, 2022, 9:44 PM IST

نئی دہلی میں نہ تو مرد زیادتی کرتے ہیں اور نہ عورتیں لیکن ان مابین حالات ایسے بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں علیحدگی کے راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔عام طور پر مسلم مردوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد اپنی بیوی پر طلاق کے ذریعہ ظلم کرتے ہیں جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ امارت شرعیہ کے زیر انتظام ثالثی مراکز پر دستیاب معلومات کے مطابق طلاق کے زیادہ تر مقدمات خلع کے طریقہ کار سے دائر کئے جا رہے ہیں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی شادی کو ختم کرنے کے لیے خلع کا انتخاب کر رہی ہیں۔divorce through khula cases spike among muslim women in delhi

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے امارت شرعیہ دہلی کے نائب امیر مفتی ذکاوت حسین قاسمی سے بات کی ۔انہوں نے بتایا کہ گذشتہ کچھ وقت سے خلع کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے اگر ہم بات کریں فیصد کی تو تقریبا 20 فیصد زیادہ خلع کے کیسز ہمارے سامنے آئیں ہیں۔ وہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جہاں خواتین کی جانب سے خلع کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے وہیں مردوں کی جانب طلاق کے معاملوں میں کمی آئی ہے۔

آخرکیوں مسلم خواتین خلع کا راستہ اختیارکررہی ہیں؟
مفتی ذکاوت حسین قاسمی نے کہا کہ عام طور پر خواتین کو خلع سے متعلق مکمل جانکاری نہیں ہے انہیں لگتا ہے جیسے مرد کے طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ویسے ہی خلع سے طلاق ہو جاتی ہے حالانکہ انہیں اس بات کی جانکاری نہیں ہوتی کہ خلع کے لئے آپ سی رضامندی ہونا ضروری ہے۔مفتی ذکاوت حسین قاسمی نے اس کے پیچھے کی وجوہات کا بھی ذکر کیا ان کے مطابق بھارت کا رہن سہن اس کا ذمہ دار ہے۔دراصل شادی کے بعد بھی ایک خاندان میں لوگ رہتے ہیں جس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہوتے ہیں اور یہی وجہ بنتی ہے ان کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کی۔

یہ بھی پڑھیں:Jamiat Ulama on Madrasa Survey مدرسہ سروے پر جمعیت علماء نے حکمت عملی تیار کی



ان کا مزید کہنا تھا کہ شریعت یہ چاہتی ہے کہ جس لڑکے کا نکاح ہو جائے وہ اپنی بیوی کو مکمل گھر اور تحفظ فراہم کریں اور بیوی پر گھر والوں کی خدمت کا زیادہ بوجھ نا ڈالا جائے، اگر ہم اس ضابطہ کو اپنا لیتے ہیں تو جس کو زیادتی کہا جا رہا ہے وہ سلسلہ بھی ختم ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو مرد زیادتی کرتے ہیں اور نہ عورتیں لیکن ان مابین حالات ایسے بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں علیحدگی کے راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

نئی دہلی میں نہ تو مرد زیادتی کرتے ہیں اور نہ عورتیں لیکن ان مابین حالات ایسے بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں علیحدگی کے راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔عام طور پر مسلم مردوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد اپنی بیوی پر طلاق کے ذریعہ ظلم کرتے ہیں جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ امارت شرعیہ کے زیر انتظام ثالثی مراکز پر دستیاب معلومات کے مطابق طلاق کے زیادہ تر مقدمات خلع کے طریقہ کار سے دائر کئے جا رہے ہیں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی شادی کو ختم کرنے کے لیے خلع کا انتخاب کر رہی ہیں۔divorce through khula cases spike among muslim women in delhi

ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے امارت شرعیہ دہلی کے نائب امیر مفتی ذکاوت حسین قاسمی سے بات کی ۔انہوں نے بتایا کہ گذشتہ کچھ وقت سے خلع کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے اگر ہم بات کریں فیصد کی تو تقریبا 20 فیصد زیادہ خلع کے کیسز ہمارے سامنے آئیں ہیں۔ وہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جہاں خواتین کی جانب سے خلع کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے وہیں مردوں کی جانب طلاق کے معاملوں میں کمی آئی ہے۔

آخرکیوں مسلم خواتین خلع کا راستہ اختیارکررہی ہیں؟
مفتی ذکاوت حسین قاسمی نے کہا کہ عام طور پر خواتین کو خلع سے متعلق مکمل جانکاری نہیں ہے انہیں لگتا ہے جیسے مرد کے طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے ویسے ہی خلع سے طلاق ہو جاتی ہے حالانکہ انہیں اس بات کی جانکاری نہیں ہوتی کہ خلع کے لئے آپ سی رضامندی ہونا ضروری ہے۔مفتی ذکاوت حسین قاسمی نے اس کے پیچھے کی وجوہات کا بھی ذکر کیا ان کے مطابق بھارت کا رہن سہن اس کا ذمہ دار ہے۔دراصل شادی کے بعد بھی ایک خاندان میں لوگ رہتے ہیں جس کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑے ہوتے ہیں اور یہی وجہ بنتی ہے ان کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کی۔

یہ بھی پڑھیں:Jamiat Ulama on Madrasa Survey مدرسہ سروے پر جمعیت علماء نے حکمت عملی تیار کی



ان کا مزید کہنا تھا کہ شریعت یہ چاہتی ہے کہ جس لڑکے کا نکاح ہو جائے وہ اپنی بیوی کو مکمل گھر اور تحفظ فراہم کریں اور بیوی پر گھر والوں کی خدمت کا زیادہ بوجھ نا ڈالا جائے، اگر ہم اس ضابطہ کو اپنا لیتے ہیں تو جس کو زیادتی کہا جا رہا ہے وہ سلسلہ بھی ختم ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو مرد زیادتی کرتے ہیں اور نہ عورتیں لیکن ان مابین حالات ایسے بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں علیحدگی کے راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.