نئی دہلی میں نہ تو مرد زیادتی کرتے ہیں اور نہ عورتیں لیکن ان مابین حالات ایسے بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں علیحدگی کے راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔عام طور پر مسلم مردوں پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مسلمان مرد اپنی بیوی پر طلاق کے ذریعہ ظلم کرتے ہیں جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ امارت شرعیہ کے زیر انتظام ثالثی مراکز پر دستیاب معلومات کے مطابق طلاق کے زیادہ تر مقدمات خلع کے طریقہ کار سے دائر کئے جا رہے ہیں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنی شادی کو ختم کرنے کے لیے خلع کا انتخاب کر رہی ہیں۔divorce through khula cases spike among muslim women in delhi
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے امارت شرعیہ دہلی کے نائب امیر مفتی ذکاوت حسین قاسمی سے بات کی ۔انہوں نے بتایا کہ گذشتہ کچھ وقت سے خلع کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے اگر ہم بات کریں فیصد کی تو تقریبا 20 فیصد زیادہ خلع کے کیسز ہمارے سامنے آئیں ہیں۔ وہیں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جہاں خواتین کی جانب سے خلع کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے وہیں مردوں کی جانب طلاق کے معاملوں میں کمی آئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Jamiat Ulama on Madrasa Survey مدرسہ سروے پر جمعیت علماء نے حکمت عملی تیار کی
ان کا مزید کہنا تھا کہ شریعت یہ چاہتی ہے کہ جس لڑکے کا نکاح ہو جائے وہ اپنی بیوی کو مکمل گھر اور تحفظ فراہم کریں اور بیوی پر گھر والوں کی خدمت کا زیادہ بوجھ نا ڈالا جائے، اگر ہم اس ضابطہ کو اپنا لیتے ہیں تو جس کو زیادتی کہا جا رہا ہے وہ سلسلہ بھی ختم ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو مرد زیادتی کرتے ہیں اور نہ عورتیں لیکن ان مابین حالات ایسے بن جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں علیحدگی کے راستہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔