مسٹر رائے نے کہا کہ مفت اور لازمی تعلیم قانون کو نافذ ہوئے 10 سال ہو گئے لیکن صرف 12.7 فیصد اسکولوں میں ہی یہ قانون مکمل طور پر لاگو ہو پایا ہے۔ لہذا نئی تعلیمی پالیسی کے مسودے کے مطابق تعلیم کا بجٹ چھ فیصد کیا جانا چاہئے تب ہی تعلیم کا معیار بڑھے گا اور ملک کی ترقی ہوگی۔ سولہ فیصد کا مطالبہ پانچ دہائی سے بھی زیادہ وقت سے انتظار میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیم میں سرمایہ کاری کرنا صرف شہریوں میں سرمایہ کاری کرنا نہیں بلکہ ملک کی ترقی میں سرمایہ کاری کرنا ہے اور فنڈ کی کمی کے سبب تعلیم کامعیار بہتر نہیں ہوا کیونکہ ملک میں اساتذہ کی بھی کمی ہے اور کئی ریاستوں میں باقاعدہ استاد بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اقتصادی اور جامع ترقی کے لئے تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔اگر پانچ ٹریلین کی معیشت کی بات کرنی ہے تو مہارت کی ترقی تحقیق و ریسرچ، ایجادات سب کی ضرورت پڑے گی اور یہ سب بجٹ بڑھانے سے ہی ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جامع ہندوستان بنانے کے لئے دلتوں، قبائلیوں، اقلیتوں اور خواتین کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ مفت اور لازمی تعلیم قانون کے لئے بہار میں (47،736 کروڑ)، اترپردیش (38،316 کروڑ)، مدھیہ پردیش (22،682 کروڑ)، مغربی بنگال (19،870 کروڑ)، راجستھان (17،731 کروڑ)، اڑیسہ (13،306 کروڑ) ، جھارکھنڈ (11122 کروڑ)، چھتيس گڑھ (7708 کروڑ)، آسام (10875 کروڑ) اور شمال مشرقی ریاستوں کے لئے 10،201 کروڑ روپے کی اضافی فنڈ کی ضرورت ہو گی۔