ETV Bharat / state

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ کے طلباء کا انوکھا احتجاج - شہریت ترمیمی قانون

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک کی غیر سطح پر احتجاج جاری ہے اس دوران جامعہ کے طلباء پوری رات اپنے بدن پر قومی پرچم لپیٹ کر احتجاج کر رہے ہیں۔

جامعہ کے طلباء کا انوکھا احتجاج
جامعہ کے طلباء کا انوکھا احتجاج
author img

By

Published : Jan 13, 2020, 9:24 PM IST

شہریت ترمیمی قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے مظاہرے اور پولیس کی لائبریری میں گھس کی گئی مبینہ کارروائی کے خلاف 16 دسمبر سے جامعہ کے گیٹ نمبر سات پر مسلسل مظاہرہ جاری ہے جو تقریباً چھ بجے ختم ہوجاتا ہے لیکن کچھ طلبہ اور طالبات ایسے ہیں جو اس کے بعد سے رات کے چار بجے تک اپنے بدن پر ترنگا لپیٹے، آئین کی تمہید اور تختی اٹھائے احتجاج کرتے ہیں۔

اس طرح کے احتجاج کرنے والے وہ طلبہ و طالبات ہیں جن لوگوں کو جامعہ کی لائبریری میں گھس کر پولیس نے زدوکوب کیا تھا اور پولیس نے ان کے ہاتھ اٹھا کر ایک مجرم کی طرح ان طلباء کی پریڈ کروائی تھی۔

ان طلباء میں سے رضی انور، صادق خان، ساجد اور فراز نے بتایا کہ ہم لوگوں نے پولیس کارروائی کے خلاف شکایت کی تھی لیکن کوئی کارروائی نہ ہونے پر ہم لوگ 17 دسمبر سے مسلسل شام میں چھ بجے سے صبح چار بجے تک ترنگا لپیٹے، آئین کی تمہید لیے اور آئین کی حمایت میں تختی لیے کھڑے رہتے ہیں۔

میڈیا نے جب ان سے اس سخت سردی اور رات کی کڑاکے کی ٹھنڈ میں کھڑے ہوکر احتجاج کرنے کی وجہ سے پوچھی تو انہوں نے کہاکہ 'جب حکومت ہی تشدد پر اتر آئے اور آئین کے خلاف کام کرنے لگے تو عوام کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر اترنا ہی پرتا ہے، جمہوریت ہمیں احتجاج کرنا سکھاتی ہے اور اپنے حقوق اور خاص طور پر آئین کی حفاظت کے لیے ہر شہری کو سڑکوں پر اترنا چاہیے اور حکومت کو مجبور کرناچاہیے کہ وہ کوئی ایسا غیر آئینی کام نہ کرے۔

انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری اور لڑکیوں کے ہاسٹل پر پولیس کی مبینہ بربریت کو ملک کی سیاہ ترین باب قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں اس طرح کا حملہ نہیں ہوا ہے اور پولیس نے کسی طرح کی بربریت لائبریری میں گھس کر نہیں کی تھی، انہوں نے کہا کہ حکومت نہ صرف غیر آئینی کام کر رہی ہے بلکہ غیر قانونی زبان اور شرپسندوں کی زبان استعمال کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف جامعہ اور شاہین باغ کے علاوہ ملک کے دیگر حصے میں احتجاج جاری ہے۔

شہریت ترمیمی قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہونے والے مظاہرے اور پولیس کی لائبریری میں گھس کی گئی مبینہ کارروائی کے خلاف 16 دسمبر سے جامعہ کے گیٹ نمبر سات پر مسلسل مظاہرہ جاری ہے جو تقریباً چھ بجے ختم ہوجاتا ہے لیکن کچھ طلبہ اور طالبات ایسے ہیں جو اس کے بعد سے رات کے چار بجے تک اپنے بدن پر ترنگا لپیٹے، آئین کی تمہید اور تختی اٹھائے احتجاج کرتے ہیں۔

اس طرح کے احتجاج کرنے والے وہ طلبہ و طالبات ہیں جن لوگوں کو جامعہ کی لائبریری میں گھس کر پولیس نے زدوکوب کیا تھا اور پولیس نے ان کے ہاتھ اٹھا کر ایک مجرم کی طرح ان طلباء کی پریڈ کروائی تھی۔

ان طلباء میں سے رضی انور، صادق خان، ساجد اور فراز نے بتایا کہ ہم لوگوں نے پولیس کارروائی کے خلاف شکایت کی تھی لیکن کوئی کارروائی نہ ہونے پر ہم لوگ 17 دسمبر سے مسلسل شام میں چھ بجے سے صبح چار بجے تک ترنگا لپیٹے، آئین کی تمہید لیے اور آئین کی حمایت میں تختی لیے کھڑے رہتے ہیں۔

میڈیا نے جب ان سے اس سخت سردی اور رات کی کڑاکے کی ٹھنڈ میں کھڑے ہوکر احتجاج کرنے کی وجہ سے پوچھی تو انہوں نے کہاکہ 'جب حکومت ہی تشدد پر اتر آئے اور آئین کے خلاف کام کرنے لگے تو عوام کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر اترنا ہی پرتا ہے، جمہوریت ہمیں احتجاج کرنا سکھاتی ہے اور اپنے حقوق اور خاص طور پر آئین کی حفاظت کے لیے ہر شہری کو سڑکوں پر اترنا چاہیے اور حکومت کو مجبور کرناچاہیے کہ وہ کوئی ایسا غیر آئینی کام نہ کرے۔

انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری اور لڑکیوں کے ہاسٹل پر پولیس کی مبینہ بربریت کو ملک کی سیاہ ترین باب قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں اس طرح کا حملہ نہیں ہوا ہے اور پولیس نے کسی طرح کی بربریت لائبریری میں گھس کر نہیں کی تھی، انہوں نے کہا کہ حکومت نہ صرف غیر آئینی کام کر رہی ہے بلکہ غیر قانونی زبان اور شرپسندوں کی زبان استعمال کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف جامعہ اور شاہین باغ کے علاوہ ملک کے دیگر حصے میں احتجاج جاری ہے۔

Intro:Body:

NationalPosted at: Jan 13 2020 6:46PM



قومی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جامعہ کے طلبہ کا انوکھا احتجاج





نئی دہلی، 13جنوری (یو این آئی) قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ ہونے والے مظاہرے اور پولیس کی لائبریری میں گھس کی گئی وحشیانہ کارروائی کے خلاف 16دسمبر سے جامعہ کے گیٹ نمبر سات پر مسلسل مظاہرہ جاری ہے جو تقریباً چھ بجے ختم ہوجاتا ہے لیکن کچھ طلبہ اور طالبات ایسے ہیں جو اس کے بعد سے رات کے چار بجے تک ترنگا لپیٹے‘، آئین کی تمہید اور تختی اٹھائے احتجاج کرتے ہیں۔



اس طرح کے احتجاج کرنے والے وہ طلبہ و طالبات ہیں جن لوگوں کو جامعہ کی لائبریری میں گھس کر پولیس نے زدوکوب کا نشانہ بنایا اور پولیس نے ہاٹھ اٹھاکر ایک مجرم کی طرح ان طلبہ کی پریڈ کروائی تھی۔ان طلبہ میں سے رضی انور‘ صادق خاں،ساجد اور فراز نے بتایا کہ ہم لوگوں نے اس پولیس کارروائی کے خلاف شکایت کی تھی لیکن کوئی کارروائی نہ ہونے پر ہم لوگوں 17دسمبر سے مسلسل چھ بجے سے رات کے چار پانچ بجے تک ترنگا لپیٹے، آئین کی تمہید لئے اور آئین کی حمایت میں تختی لئے کھڑے ہوتے ہیں۔



یو این آئی اردو سروس جب ان سے اس سخت سردی اور رات کے کڑاکے کی ٹھنڈ میں کھڑے ہوکر احتجاج کرنے کی وجہ سے پوچھے جانے پر کہاکہ جب اسٹیٹ پر تشدد پر اتر آئے اور آئین کے خلاف کام کرنے لگے تو عوام کو احتجاج کے لئے سڑکوں پر اترنا ہی ہوتا ہے۔ جمہوریت ہمیں احتجاج کرنا سکھاتی ہے اور اپنے حقوق اور خاص طور پر آئین کی حفاظت کے لئے ہر شہری کو سڑکوں پر اترنا چاہئے اور حکومت کو مجبور کرناچاہئے کہ وہ کوئی ایسا غیر آئینی کام نہ کرے۔



انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریر اور لڑکیوں کے ہاسٹل پر پولیس کے حملے کو ہندوستان کی سیاہ ترین باب قرار دیتے ہوئے کہاکہ دنیاکی کسی یونیورسٹی اس طرح کا حملہ نہیں ہوا ہے اور پولیس نے کسی طرح کی بربریت لائبریری میں گھس کر نہیں کی تھی۔انہوں نے کہاکہ حکومت نہ صرف غیر آئینی کام کر رہی ہے بلکہ غیر قانونی زبان اوردنگائیوں کی زبان استعمال کر رہی ہے۔



واضح رہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پولیس کی وحشیانہ کارروائی کے خلاف جامعہ اور شاہین باغ کے علاوہ ملک کے دیگر حصے میں احتجاج جاری ہے۔



شاہین مظاہرین کا نظام دیکھنے والوں میں سے ایک محترمہ صائمہ خاں نے بتایا کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، دہلی یونیورسٹی کے طلبہ سمیت مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ نے اس مظاہرہ میں شریک ہوکر خواتین کا حوصلہ بڑھارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبردست سردی کے موسم میں خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ اس کا قدم کس قدر غلط ہے اور اس نے مذہبی بنیاد پر قانون بناکر لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان خواتین نے کہاکہ ہم سخت ترین سردی کے موسم میں مظاہرہ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت ہمارے درد کو سمجھے۔شاہین باغ میں اتوار کو لاکھوں مرد و خواتین نے جمع ہوکر یہ دکھادیا کہ وہ لوگ کتنے متحد ہیں اور اسی کے ساتھ شاہین باغ مظاہرین اسکوائر پر پنڈتوں نے ہون، سکھوں نے کیرتن، بائبل اور قرآن کی تلاوت کرکے صلح کل کا پیغام دے رہے ہیں۔



محترمہ صائمہ خاں نے بتایا کہ اس دھرنا اور مظاہرہ میں شریک ہونے والے مقررین نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) واپس لینے اور قومی شہری رجسٹر (این آر سی) اور قومی آبادی رجسٹر (این آر پی) کا بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے کہاکہ اس کا مقصد ملک کو تقسیم کی جانب دھکیلنا ہے۔ یہ قانون نہ صرف آئین کے خلاف ہے بلکہ ملک کی سیکولر اقدار و روایات کے بھی خلاف ہے۔انہوں نے کہاکہ اس کے علاوہ شاہین باغ میں پورے ہندوستان کا سنگم نظر آئے گا۔



انہوں نے بتایا کہ شاہین باغ مظاہرین کی حمایت میں ہون بھی کیا گیا اور مسلم خواتین نے ٹیکے بھی لگائے۔ یہ اس بات ثبوت ہے کہ اس مظاہرہ میں صرف ایک فرقہ کے لوگ نہیں بلکہ ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی سب شامل ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ آکر شاہین باغ خواتین مظاہرین کی حمایت کررہے ہیں اور پورے ملک سے مردو خواتین آکر شاہین باغ خواتین کی حمایت کر رہے ہیں۔



یو این آئی۔ ع ا۔


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.