دارالحکومت دہلی کے سرائے خلیل میں سنہ 1976 تک قومی اسکول پوری شان و شوکت کے ساتھ چار منزلہ عمارت کے 23 کمروں میں سینکڑوں بچوں کا مستقبل سنوار رہا تھا، لیکن ایمرجنسی کے دوران اسکول کو یہ کہتے ہوئے منہدم کر دیا گیا کہ 6 ماہ کے اندر اسکول کی ازسرنو تعمیر کی جائے گی مگر اسکول کی اراضی پر فلیٹ بنا دیے گئے۔
تب سے قومی سینئر سیکنڈری اسکول قریش نگر کی عید گاہ میں ٹین شیڈ میں ہی تعلیمی خدمات انجام دے رہا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجندر مینن اور جسٹس کامیشور راؤ کی ایک بینچ نے فیروز بخت کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے برائے فلاح عام کے فیصلہ کن سماعت کے دوران کہا کہ غریب و نادار بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے اسکول تعمیر کیا جائے۔
قومی سینئر سیکنڈری اسکول کی زمین معاملے پر دہلی ہائی کورٹ نے 27 اگست 2018 کے اپنے فیصلے میں ڈی ڈی اے کو ہدایت دی تھی کہ قومی اسکول کو 4 ہزار گز زمین الاٹ کی جائے۔ ساتھ ہی عدالت نے ڈی ڈی اے کو تین مہینے کا وقت دیا تھا کہ وہ اسکول کی جدید تعمیر کرائے۔
مزید پڑھیں: غریبوں کے درد کا ہمدرد حسین شیخ، 1500 طلبہ کی فیس کو کیا معاف
عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ ایک معیاری اور مثالی اردو میڈیم اسکول کی تعمیر کے لیے ضروری ہے کہ تمام محکمہ تعاون کریں۔ تاہم اس بات کو بھی 3 برس مکمل ہونے کو ہیں اس کے باوجود ملی قومی اسکول اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔