دہلی پولیس نے جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد اور چھ دیگر کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ عمر خالد نے سال 2020 میں قومی دارالحکومت میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران تشدد بھڑکانے اور پولیس افسران پر حملہ کرنے کی سازش رچی تھی۔ Delhi Police Opposed Bail Plea of Umar Khalid
اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کے سامنے یہ دلائل پیش کیے.
پراسیکیوٹر نے دلیل دی کہ 2020 کے دہلی فسادات پہلے سے طے شدہ ؛منصوبہ کے تحت انجام دیا گیا، یہ سازش مبینہ طور پر عمر خالد، خالد سیفی، شرجیل امام، صفورا زرگر، دیوانگنا کلیتا، نتاشا بدھور اور دیگر ملزمین کے کہنے پر انجام دی گئی۔Delhi Police Alleged that Umar Khalid Conspired to Incite Violence
اسپیشل پبلک پروسیکیوٹر امت پرساد نے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں سازش رچنے والوں نے بھیم آرمی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپل مشرا پر الزام لگانے کی کوشش کی۔
پروسیکوٹر نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو 24 فروری 2020 کو شمال مشرقی دہلی کے چاند باغ علاقے میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں میں قید ہوئی فوٹیج کو دکھایا اور ایک واٹس ایپ گروپ 'دہلی پروٹسٹ سپورٹ گروپ' میں ملزمین کی چیٹس بھی عدالت میں پیش کی۔
دہلی پولیس کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے عدالت سے کہا کہ 'اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف ہم نے آپ کو یہ کہتے ہوئے دیکھا کہ بھیم آرمی کے ذریعہ بھارت بند کی کال کے بعد وہاں کشیدگی بڑھ گئی۔ اس کے بعد کپل مشرا کے خلاف شکایت کی گئی۔
وکیل نے عدالت سے کہا، ’’اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف ہم نے یہ کہتے ہوئے دیکھا ہے کہ بھیم آرمی (بھارت بند) کی کال کے بعد کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ کپل مشرا کے خلاف شکایت درج کی گئی ہے۔ یہ میسج خالد سیفی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ ان لوگوں نے پہلا محاذ بھیم آرمی اور دوسرا محاذ کپل مشرا کے خلاف کھولا۔ ان سب میں مقامی لوگوں کی کوئی حصہ داری نہیں تھی۔ جب وہاں کوئی مقامی خاتون نہیں تھی تو ان کے پاس دوسرا آپشن کیا تھا؟ کہیں اور سے یہاں لوگوں کو لے کر آنا۔
پروسیکوٹر نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین تیزاب، ڈنڈے، لاٹھیاں اور لال مرچیں وغیرہ اکٹھا کر رہے تھے۔ وہیں خالد اور دیگر ملزمین نے فسادات میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان شہریت ترمیمی قانون کے حامیوں اور اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔ اس تشدد میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
خالد اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی دو طالبات میران حیدر اور صفورا زرگر کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان کے خلاف فروری 2020 کے فسادات کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام ہے۔
مزید پڑھیں: Prosecution Compares Delhi Violence to 9/11: دہلی فسادات کا 9/11 حملوں کی سازش سے تقابل